تین ارب ڈالر ملنے کی خوشی

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے تین ارب ڈالر کا قرضہ ملنے پر ملک میں شادیانے بجائے جارہے ہیں۔کہیں مٹھائیاں تقسیم ہورہی ہیں تو کہیں بھنگڑے ڈالے جارہے ہیں‘حالانکہ وزیراعظم نے اعتراف کیا ہے کہ بھاری شرح سود اور ناپسندیدہ شرائط پر قرضہ ملنا لمحہ فخریہ نہیں بلکہ لمحہ فکریہ ہے۔ تاہم اس قرضے سے ہمیں مستقبل کے لئے اپنی سمت کا تعین کرنے میں مدد ملے گی‘یہ بات طے ہے کہ آئی ایم ایف کا قرضہ ملنے سے سٹاک ایکس چینج کے کاروبار میں بہتری آئے گی۔ بیرونی قرضوں اور ان پر سود کی ادائیگی کے لئے ہمیں ڈالر ملیں گے۔ سینکڑوں سمندری جہاز کراچی کی بندرگاہ پر کھڑے ہیں اور ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے ان میں لدا سامان کئی مہینوں سے نہیں اتارا جاسکا۔ ڈالر ملنے سے وہ سامان جہاز سے اتارا جائے گا۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوگا جو فی الحال ساڑھے تین ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔ تاہم قرضہ ملنے کے بعد آٹا، چینی، گھی، کوکنگ آئل، دال، چاول، مصالحہ جات،صابن، شیمپو اور عام آدمی کے روزمرہ استعمال کی اشیا ء کے نرخوں میں کمی کا کوئی امکان نہیں،جن شرائط پر آئی ایم ایف نے ہمیں قرضہ دینے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے ان شرائط میں سے کچھ فنانشل بل کی صورت میں سامنے آئی ہیں جس میں قدرتی گیس، بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ قابل ذکر ہے۔ وقت گذرنے کے ساتھ سیلز ٹیکس کی شرح میں اضافے،نئے ٹیکسوں اور محصولات  کے نفاذ کی شکل میں مہنگائی میں مزید 20سے30فیصد تک اضافے کا امکان ہے۔ اس وقت پاکستان کی مجموعی معاشی حالت پر طائرانہ نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ بائیس کروڑ کی آبادی کے اس ملک میں آٹھ کروڑ 88لاکھ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے کی سطح پر زندگی گذار رہے ہیں۔ ملک کی 60فیصد آبادی یومیہ دو ڈالر سے بھی کم آمدنی پر گذارہ کر رہی ہے۔حکومت پاکستان کی طرف سے جاری کئے گئے حالیہ اعدادوشمار کے مطابق بلوچستان میں غربت کی شرح52فیصد، سندھ میں 33فیصد، خیبر پختونخوا میں 32فیصد اور پنجاب میں 28فیصد ہے۔ پورے ملک میں غریب ترین ضلع کوہستان قرار پایا ہے جہاں غربت کی شرح 89فیصد ہے۔ 30فیصد بچے علاج کی مناسب سہولتوں سے محروم ہیں۔ 43فیصد والدین اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ملک کی 20فیصد آبادی آج بھی صاف پانی، بجلی اور ایندھن کی سہولت سے محروم ہے۔ مہنگائی کی شرح گذشتہ ایک سال کے اندر 45فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ تیل مہنگا ہونے کی وجہ سے باربرداری کے کرایوں میں 150فیصد اضافہ ہوا ہے اور تیل سے پیدا ہونے والی بجلی تین گنا زیادہ مہنگی ہوگئی ہے۔ حکومت نے مزدور کی کم از کم تنخواہ 35ہزار روپے ماہانہ مقرر کردی ہے مگر آج بھی فیکٹریوں، بیکریوں، دکانوں نجی شعبے میں تعلیم اور صحت کے اداروں اور تعمیراتی سیکٹر میں مزدور کو بارہ سے پندرہ ہزار روپے ماہانہ تنخواہ ملتی ہے۔ چھ افراد پرخاندان کی آمدن اگر پندرہ سے بیس ہزار روپے ہے تو وزیرخزانہ اس خاندان کا ماہانہ بجٹ بناکردکھادیں تو ہم بھی مان جائیں گے کہ وہ ملک کو معاشی طور پر ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔آئی ایم ایف سے لئے جانے والے قرضے کا ایک فیصد بھی عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ نہیں ہوگا۔ جبکہ یہ قرضہ سود سمیت ٹیکسوں کی شکل میں عوام کا خون نچوڑ کر وصول کیا جائے گا۔بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے پالیسی سازوں اور ارباب اختیار و اقتدار کی ترجیح عوام کی فلاح و بہبود، غربت میں کمی، بے روزگاری کا خاتمہ اور عوام کا معیار زندگی بہتر بنانا کبھی نہیں رہا۔ قومی ایوانوں میں جو بھی قانون سازی کی جاتی ہے وہ اشرافیہ کے مفادات کو مدنظر رکھ کر تیار کی جاتی ہے۔ کچھ لوگوں نے یہ اعتراض اٹھایا ہے کہ آئی ایم ایف اپنی شرائط میں غربت، بے روزگاری اور مہنگائی پر قابو پانے اور اشرافیہ کی مراعات ختم کرنے کی شرط کیوں نہیں رکھتا۔ اگر حکمرانوں اور سرکاری افسروں کی پرتعیش گاڑیاں، ان کامفت فیول، مفت بجلی، مفت گیس، صوابدیدی فنڈز، سرکاری رہائش گاہیں اور بیرون ملک دوروں اور علاج پر پابندی لگائی جائے تو ہمیں آئی ایم ایف سمیت کسی بھی مالیاتی ادارے اور ملک سے قرضہ لینے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو ملک اپنی آزادی کے بیس سالوں کے اندر چین اور جنوبی کوریا کو مالی امداد دے رہا تھا۔ وہ گذشتہ پچاس سالوں کے اندر قلاش، بھکاری اور دیوالیہ کیوں بنا۔جب اس سوال کو جواب سنجیدگی سے جاننے کی ہمارے پالیسی ساز کوشش کریں گے اس دن سے ملک میں مثبت تبدیلی کا عمل شروع ہوسکتا ہے۔