صوبائی محکمہئ صحت نے کہا ہے کہ ”کورونا وبا (نوول کوویڈ 19) کا سبب بننے والا جرثومہ (وائرس) خیبرپختونخوا کے مختلف حصوں میں تاحال موجود (فعال) ہے اور اِس ’وبائی خطرے‘ کو معمولی سمجھ کر نظر انداز نہ کیا جائے“ دوسری اہم بات یہ کہی گئی ہے کہ ’کورونا وبا کے خلاف جسمانی قوت مدافعت میں اضافہ کرنے والی ویکسینیشن کا عمل جاری ہے جو ’عالمی اِدارہئ صحت (WHO)‘ کی جانب سے تجویز و اعلان کردہ ہے اگر ویکسی نیشن کا عمل مکمل کروا لیا جائے تو ’کورونا وبا‘ کی وجہ سے صحت عامہ کی ’ہنگامی صورتحال‘ لاگو کرنا نہیں پڑے گی اور یہ خطرہ اگرچہ برقرار رہے گا لیکن اِس کی شدت ماضی کی طرح وسیع پیمانے پر حملہ آور نہیں ہو سکے گی“ اِس حوالے اعدادوشمار بھی جاری کئے گئے ہیں کہ خیبرپختونخوا کی 70 فیصد آبادی ’کورونا ویکسی نیشن‘ مکمل کروا چکی ہے۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ویب سائٹ (who.int) پر قائم کئے گئے ’عالمی معلوماتی مرکز (Dash-board)کے مطابق 28 جولائی تک دنیا بھر میں کورونا متاثرین کی کل تعداد ’76 کروڑ 75 لاکھ 18 ہزار 723 رجسٹرڈ ہو چکی ہے جبکہ اِس مرض سے اموات کی کل تعداد ’6 کروڑ 47 لاکھ 192‘ ہے۔ کورونا سے متاثرین کی سب سے زیادہ تعداد (27 کروڑ 56 لاکھ سے زائد مریضوں) کا تعلق براعظم یورپ جبکہ سب سے کم یعنی 95 لاکھ 40 ہزار مریضوں کا تعلق براعظم افریقہ سے ہے۔ ایشیائی خطہ جس میں پاکستان بھی شامل ہے کورونا متاثرین کی تعداد کے لحاظ سے چوتھے نمبر پر ہے اور جنوب مشرقی ایشیا میں کورونا سے ’تصدیق شدہ‘ متاثرہ مریضوں کی کل تعداد 6 کروڑ 11 لاکھ 89 ہزار 14 مریض بتائی گئی ہے۔ یہ پہلو بھی پیش نظر رہے کہ دنیا کے کئی ممالک میں کورونا ویکسینیشن وہاں کی قریب پوری آبادی نے مکمل کر لی ہے یہی وجہ ہے کہ کورونا وبا کو ’سنگین عالمی مسئلہ‘ قرار نہیں دیا جا رہا لیکن یہ اپنی نوعیت کا ’عالمی مسئلہ‘ ضرور ہے اور یہی وجہ ہے کہ اِس موجود خطرے سے خاطرخواہ نمٹنے کے لئے ’ویکسینیشن‘ کا عمل جاری ہے۔خیبرپختونخوا کے محکمہئ صحت کی جانب سے جاری بیان میں صوبے کے طول و عرض میں ’ہیلتھ ورکرز‘ کی کارکردگی کو ’بہترین‘ قرار دیتے ہوئے سراہا گیا ہے کہ جنہوں نے گھر گھر جا کر ’کورونا وبا‘ کے خلاف ویکسینیشن کا عمل مکمل کرنے میں دن رات محنت کی تاہم اِس حوالے سے تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ کورونا وبا کے بارے میں ’غلط معلومات‘ کی بنا پر جو ’منفی تاثر‘ پایا جاتا ہے اُس کی وجہ سے ویکینیشن کا تاحال ’70فیصد‘ تک ہی عمل ہو سکا۔ ذہن نشین رہے کہ رواں سال مئی (دوہزارتئیس) کے اَوائل میں ’عالمی ادارہئ صحت (ڈبلیو ایچ اُو)‘ کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ کورونا وبا کی ’عالمی سطح پر‘ ہنگامی صورتحال نہیں رہی جس کی وجہ سے لوگ پرسکون ہو گئے اور اُنہوں نے کورونا ویکسین مکمل کرنے کو ضروری نہیں سمجھا۔ یہ بات اپنی جگہ لائق توجہ ہے کہ پاکستان میں کورونا ویکسینیشن کا ہدف اِس لئے بھی ’70 فیصد‘ تک مکمل کر لیا گیا ہے کیونکہ حکومت کی جانب سے تعلیمی اداروں اور ہاسٹلز (قیام گاہوں) میں داخلے‘ اراضی کی ملکیت منتقلی یا دیگر متعلقہ دستاویزات‘ پاسپورٹ‘ شناختی کارڈ حتیٰ کہ علاج معالجے اور جراحت سے قبل کورونا وبا کی ٹیکہ کاری کو لازمی قرار دیا گیا جس کی وجہ سے لوگوں نے مجبوراً بھی ویکسینیشن کروائی اور اگر اِسی حکمت ِعملی کو جاری رکھتے ہوئے جملہ حکومتی خدمات کورونا وبا کی ویکسینیشن سے متصل کر دی جائے تو باقی ماندہ ہدف بھی بڑی حد تک حاصل کیا جا سکتا ہے۔پاکستان میں کورونا وبا کے باعث ’30 ہزار سے زائد‘ اموات ہوئیں جن میں خیبرپختونخوا سے چھ ہزار سے زائد اموات شامل ہیں اور یہی وہ نکتہ ہے جس کی جانب صوبائی محکمہئ صحت کے فیصلہ ساز توجہ دلا رہے کہ ’ڈبلیو ایچ او‘ کے کورونا وبا سے متعلق مذکورہ اعلان کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ اِس وبا سے بچنے کے لئے حفاظتی اقدامات بشمول ویکسینیشن کی اہمیت کو نظرانداز کر دیا جائے کیونکہ ’کورونا وبا‘ کا باعث بننے والا جرثومہ مختلف نت نئی اشکال میں سامنے آ رہا ہے اور اِس کی بعض نئی اقسام ابتدائی قسم کے مقابلے زیادہ مہلک ہیں۔ کسی بھی مرض سے خود کو بچانے کے لئے علاج معالجہ ضروری ہے لیکن بدقسمتی سے ’حفاظتی ٹیکوں‘ کے بارے میں ایک خاص طبقے کے فکروعمل میں تبدیلی نہیں آ رہی جن کی اصلاح کے لئے محکمہئ صحت کے صوبائی فیصلہ سازوں نے نچلی سطح پر آگاہی مہم چلانے کا آغاز کر دیا ہے تاکہ انفرادی طور پر ہر ایک شخص کو قائل کیا جاسکے کہ کورونا و دیگر بیماریوں سے محفوظ رہنے کے لئے ویکسی نیشن ضروری ہے محکمہئ صحت نے ایسے مریضوں کے لئے ’کورونا ویکسی نیشن‘ انتہائی ضروری قرار دی ہے جو سرطان (کینسر)‘ ذیابیطس (شوگر)‘ بلند فشار خون (ہائی بلڈ پریشر)‘ امراض قلب‘ گردے اور پھیپھڑوں کے دائمی امراض میں مبتلا ہیں اور بیماریوں کے خلاف اُن کی جسمانی قوت مدافعت کمزور ہے۔ خیبرپختونخوا میں کورونا سے متاثرہ مریضوں کا علاج معالجہ کرتے ہوئے پچاس طبی و معاون طبی عملے سے تعلق رکھنے والے افراد کی اموات ہوئی ہیں۔ اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال کر ہزاروں زندگیاں بچانے والے اِن ’حقیقی ہیروز‘ کی خدمات کو نہ تو خاطرخواہ اُجاگر کیا گیا اور نہ ہی اُن کی اِس قربانی کی جانب متوجہ کرتے ہوئے عوام سے اپیل کی گئی کہ وہ اپنے قریبی صحت کے مرکز سے ’ویکسی نیشن‘ کا عمل مکمل کروائیں۔ ذہن نشین رہے کہ بڑے شہروں (گنجان آباد علاقوں) میں رہنے والوں کو ’وبائی امراض‘ سے متاثر ہونے کا خطرہ دیہی علاقوں کی نسبت زیادہ رہتا ہے جبکہ دیہی علاقوں میں اگر کوڑا کرکٹ کی تلفی‘ صفائی اور جسمانی طہارت پر خاطرخواہ توجہ نہ دی جائے تو یہ بھی کئی طرح کی وبائی امراض لاحق ہونے کا باعث بنتا ہے۔ صحت مند طرز ِزندگی اپنانے کے لئے ضروری ہے کہ مستند معالجین کی رائے کو توجہ سے سُنا جائے اور ہر بات میں سازشی پہلو تلاش کرنے کی مہارت رکھنے والوں کی جانب سے غیرمصدقہ معلومات پر مبنی افواہوں پر کان نہ دھرا جائے۔ توجہ طلب ہے کہ انفرادی طور پر صحت مند طرز معاشرت ہی میں ’اجتماعی صحت (بہتری) پوشیدہ (مضمر) ہے۔