پانچ جولائی کاسبق 

پاکستان کی تاریخ کے طویل ترین مارشل لاءکانفاذ آج سے 46برس پہلے ہوا تھا آج ہی کے دن جمہوریت کی بساط لپیٹ دی گئی تھی اور ملک پر آمریت کے تاریک سائے چھاگئے تھے یہ سب کچھ اچانک بھی نہیں ہوا تھا گذشتہ چار عشرے کے دوران اس حوالہ سے بہت سے پوشید ہ حقائق بھی طشت ازبام ہوچکے ہیںتاہم یہ حقیقت ہے کہ اس کی بڑی وجہ اس وقت کی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان باہمی بد اعتماد ی ،مذاکراتی عمل شروع کرنے میں تاخیر ،مذاکرات کو بلا ضرورت طوالت دینا اورپھر معاہدے پر متفق ہوجانے کے باوجود اس پر دستخط کرنے کو التواءمیں ڈالنا ہے اسی نے پھر جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی سے اتاردیاتھا1977ءمیں جب بھٹو اور امریکا کے درمیان کشید گی میں اضافہ ہوا تو بھٹو نے اپنے بعض مشیروں کے مشورے پر دسمبر 1976میں قبل ازوقت عام انتخابات کے انعقادکے لئے شیڈول کااعلان کردیا چونکہ اس وقت عوام میں امریکا کے خلاف سخت رد عمل تھا اس لیے بھٹو سے کہاگیا کہ اگر فوری طورپر انتخابات کرواد دیئے جائیں تو پیپلزپارٹی واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کرے گی چنانچہ بھٹو نے قومی اسمبلی کے انتخابات کے لیے سات مارچ 1977ءکی تاریخ مقرر کی ان کو خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے یہ رپورٹ بھی دی گئی تھی کہ اپوزیشن جماعتیں بری طرح سے منتشر ہیں اور الیکشن میں ان کے متحد ہونے کا کوئی امکان نہیں ان کو سب اچھا کی رپورٹ دی گئی مگر ان کی توقعات کے برعکس اعلان کے فوراً بعد نو سیاسی جماعتیں ان کامقابلہ کرنے کےلئے متحدہوگئیں پاکستان قومی اتحاد کے نام سے اپوزیشن جماعتیں ایک پلیٹ فار م پر متحدہوگئیں ان جماعتوںمیں نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی ،تحریک استقلال ،جماعت اسلامی جمعیت علمائے اسلام ،جمعیت علمائے پاکستان ،مسلم لیگ پگارا،پاکستان جمہوری پارٹی ،خاکسار تحریک اور آزاد مسلم کانفرنس شامل تھیں جنوری 1977ءمیں اتحاد کو حتمی شکل دی گئی جب الیکشن ہوئے تو پیپلزپارٹی نے پاکستان قومی اتحاد کو واضح اکثریت سے شکست سے دوچار کردیاتھا ‘ پاکستان پیپلزپارٹی نے 191امیدوار کھڑے کیے تھے جن میں سے 155امیدوار کامیاب ہوئے تھے جبکہ پاکستان قومی اتحاد نے 
168امیدوارکھڑے کیے تھے مگر ان کے صرف 36امیدوار کامیاب ہوسکے تھے جبکہ دیگر اکیس جماعتیں بھی میدان میں تھیں مگر انہوںنے کوئی ایک نشست بھی حاصل نہیں کی ۔قومی اتحاد نے حکومت پر منظم دھاندلی کاالزام عائدکرتے ہوئے دوروز بعدہونے والے صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کابائیکاٹ کردیا جبکہ قومی اسمبلی کے اراکین کو بھی حلف اٹھانے سے روک دیا۔ درحقیقت الیکشن مہم کے دوران ہی بعض ایسے واقعات رونما ہوئے تھے جس سے قومی اتحاد کی قیادت کی تشویش میں اضافہ ہونے لگاتھا ۔الیکشن کے بعد احتجاجی تحریک شروع کردی گئی جس کے بعد اتحاد کے تمام اہم رہنماﺅں مفتی محمود ،اصغرخان ،شیرباز مزاری ،بیگم نسیم ولی خان ،مولانا شاہ احمد نورانی وغیرہ کو گرفتار کرلیاگیا ‘انیس مارچ کو پیپلزپارٹی اور قومی اتحادکے کارکنوں کے درمیان خونی تصادم ہوا جس میں پیپلز پارٹی کے تیرہ اور پی این اے کے تیس کارکن جاں بحق ہوئے ۔ اس سیاسی تحریک نے جلد ہی مذہبی رنگ اختیار کرلیا اور اسے تحریک نفاذ نظام مصطفی کانام دے دیاگیا جس کے بعد تحریک میں مزید شدت آگئی 14اپریل 1977ءکو لاہور میں جلوس پرپولیس کی فائرنگ سے 16افرادجاں بحق ہوئے۔غیر سرکاری رپورٹوں کے مطابق تحریک کے دوران ایک ہزار ا فراد جاں بحق ہوئے۔ بھٹو اور ان کے رفقاءکاخیال تھاکہ قومی اتحاد کی تحریک ایک ہفتے میں دم توڑ دے گی مگر ان کے اندازے غلط ثابت ہوئے ۔مارچ کے اواخر میں کراچی اور حیدرآباد فوج کے حوالہ کردیئے گئے رفتہ رفتہ جنرل ضیاءپر پرزے نکالنے لگے ۔جیسے جیسے حالات خراب ہوتے گئے بھٹو کاجنرل ضیاءپر انحصاربڑھتاچلاگیا اور انہیں وفاقی کابینہ کے اجلاس میںبھی بلانا شروع 
کردیاگیا ۔جنرل ضیاءکے دباﺅ پرہی بھٹو اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کے لئے تیار ہوئے ۔حکومتی ٹیم وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم، مولانا کوثر نیازی مرحوم، اور عبدالحفیظ پیرزادہ پر مشتمل تھی، جبکہ اپوزیشن، یعنی پاکستان قومی اتحاد کی طرف سے مولانا مفتی محمود، نواب زادہ نصر اللہ خان، اور پروفیسر عبد الغفو مذاکرات کی میز پر بیٹھے تھے‘یہ سب کے سب وفات پا چکے ہیں،انتخابی دھاندلیوں کو تسلیم کرتے ہوئے انتخابات کے دوبارہ انعقاد پر اتفاق رائے ہو چکا تھا، مگر اس نکتے پر بات پھنس گئی تھی کہ پاکستان قومی اتحاد کی قیادت وزیراعظم بھٹو مرحوم سے یہ کہہ کر استعفے کا مطالبہ کر رہی تھی کہ ان کے وزیراعظم رہتے ہوئے دوبارہ انتخابات کے شفاف ہونے پر اطمینان نہیں ہے۔ وزیر اعظم سے استعفا دینے کے اس مطالبے پر مذاکرات ڈیڈلاک کا شکار ہوگئے تھے اور اس وقت کے آرمی چیف نے ایک مرحلے پر مذاکرات میں شرکت کرکے یقین دلایا تھا کہ وہ آئین اور دستوری حکومت کا تحفظ کریں گے، اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ قوم کے سامنے ہے۔جب مذاکرات میں انتخابی دھاندلیوں کو تسلیم کر لیا گیا اور دوبارہ الیکشن پر بھی اتفاق ہوگیا تو بھٹو مرحوم نے کہا کہ مَیں نے آپ کے دونوں مطالبات مان لئے ہیں، اس لئے آپ استعفے کے مطالبے پر اصرار نہ کریں اور کوئی بات تو میری بھی مان لیں، کیونکہ مذاکرات ”کچھ لو کچھ دو“ کے اصول پر ہوتے ہیں اور مجھے بھی اپنی پارٹی کو مطمئن کرنا ہے۔تاہم اس وقت پی این اے یعنی قومی اتحاد نے بات نہ سنی بہرحال کہاجاتاہے کہ معاملات طے پاگئے تھے کہ بھٹو مرحوم غیر ملکی دورے پر نکل گئے اورفیصلہ ہواکہ پانچ یا چھ جولائی کو معاہدے پر دستخط ہوجائیں گے مگر یہ غیر ضروری تاخیر ثابت ہوئی اور جنرل ضیاءجو حالات کاجائز ہ لے رہے تھے نے اس مختصرالتوا ءکابڑا لمبا فائدہ اٹھایا اور اس کے بعد جمہوریت کی مکمل بحالی کےلئے قوم کو گیارہ سال جدوجہد کے مراحل سے گذرنا پڑا موجودہ حالات دیکھ کریہ احساس ہوتاہے کہ ہمارے سیاست دانوںنے پانچ جولائی کے سبق کو نظرانداز کردیاہواہے جس کے بعدسسٹم پر عوامی اعتماد کامتزلزل ہونا حیرانی کی بات نہیں ہوگی ۔