ہمارا ماحول جل رہا ہے

ہم جس ماحو ل میں زندگی گزار رہے ہیں اس میں بڑے پیمانے پر تبدیلی واقع ہو رہی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ زندگی دوست نہیں رہا بلکہ اس میں زندگی گزارنا اب خطرے سے خالی نہیں۔ اس حوالے سے عالمی سطح پر بھی تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے اور ممالک کے اندر بھی۔ انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے سر براہ نے گزشتہ روز اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل میں خوراک کے حق پر بحث کے دوران دنیا کو خبردار کیا کہ آب و ہوا کی تبدیلی سے بھوک، اور مصائب سے صحیح معنوں میں ایک خوفناک مستقبل کا خطرہ لاحق ہے ۔انہوںنے کہا کہ ہمارا ماحول جل رہا ہے، پگھل رہا ہے ،سیلابوں کی زدمیں ہے، خشک ہو رہا ہے، مر رہا ہے۔جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل میں گفتگو کرتے ہوئے وولکر ترک نے عالمی راہنماﺅں پر اس بارے میں تنقید کی کہ وہ آب و ہوا کی تبدیلی سے نمٹتے ہوئے صرف مختصر مدت کو مد نظر رکھتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ شدید موسمیاتی تبدیلیاں فصلو ں، مویشیوں کے ریوڑ اور ماحولیاتی نظاموں کو تباہ کر رہی ہیں جس کے نتیجے میں کمیونٹیز کے لئے تعمیر نو اور اپنی گزر اوقات کا بندو بست کرنا مشکل ہو گیا ہے ۔وولکر نے کہا کہ ، 2021 میں 828 ملین سے زیادہ لوگوں کو بھوک کا سامنا کرنا پڑا۔ اور خطرہ ہے کہ آب وہوا کی تبدیلی سے اس صدی کے وسط تک مزید 80 ملین افراد کو بھوک کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنا انسانی حقوق کا مسئلہ ہے ، اب بھی وقت ہے کہ کچھ کیا جائے۔اور وہ وقت ہے اب ۔2015 کے پیرس معاہدے کے تحت ملکوں نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ عالمی درجہ حرارت کو دوڈگری سیلسیئس سے کم رکھا جائے گا۔ اور اگر ممکن ہو تو 1.5 سینٹی گریڈ تک محدود کیا جائے گا۔ لیکن 2022 میں عالمی درجہ حرارت دئیے گئے اوسط سے 1.15 سنٹی گریڈ زیادہ تھا۔اقوام متحدہ کے کلائمیٹ سائنس ایڈوائزری پینل، آئی پی سی سی کے مطابق، اگر یہ ہی رجحان جاری رہاتو اس صدی کے آخر تک کرہ ارض 2.8 سینٹی گریڈ زیادہ گرم ہوجائے گا۔وولکر نے کہا کہ ہمیں بھوک اور مصائب کا یہ مستقبل اپنے بچوں اور ان کے بچوں تک نہیں پہنچانا چاہئے۔ ہمیں ایسا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم جو تاریخ کے سب سے طاقتور تکنیکی آلات کی حامل جنریشن ہیں ، ہم اسے تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ عالمی رہنما عمل کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں اس کے لئے اقدام کرنے کا وعدہ کرتے ہیں اور پھر مختصر مدت کے اقدامات پر مرکوز ہو جاتے ہیں۔وولکر نے دنیا پر زور دیا کہ وہ گرین واشر ز یعنی ان کمپنیوں سے بچے جو ماحولیات کو بہتر بنانے کے اقدامات سے زیادہ اپنی مصنوعات کو ماحول دوست ثابت کرنے کی تشہیر سے لوگوں کو دھوکہ دیتی ہیں اور ان سے بھی بچے جو اپنے لالچ کی وجہ سے آ ب وہوا کی سائنس پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہیں ۔ یعنی اس وقت مقابلہ ہے ماحول دوست اور ماحول دشمن قوتوں میں اور کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ اس وقت ماحول دشمن قوتوں کا غلبہ ہے ۔
یعنی دنیا پر حکمرانی ان کمپنیوں کی ہے جن کی مصنوعات نے پوری دنیا پر غلبہ پایا ہے اور عالمی سطح پر ان کمپنیوں کا اثر و رسوخ اس قدر زیادہ ہے کہ حکومتیں بھی ان کا راستہ نہیں روک سکتیں اگر یہ کمپنیوں مل کر ماحول دوست اقدامات کریں تو اس وقت جس مسئلے کا عالمی برادری کو سامنا ہے اس کا حل آسا ن ہے ۔ مغربی ممالک خاص طور پر اس حوالے سے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہے ہیں کہ وہ وہاں صنعتیں ترقی کی وجہ سے ماحول کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے اور یہ نقصان ان ممالک تک محدود نہیں بلکہ وہ ممالک ماحولیاتی تبدیلی سے بہت زیادہ متاثر ہو رہے ہیں جن کے اس سلسلے میں کردار نہ ہونے کے برابر ہے ۔