غذائی غربت

محکمہ صحت کے ذرائع اور طبی ماہرین سے قومی و صوبائی سطح پر بیماریوں اور اِن کے علاج کی دستیاب و درکار سہولیات کے حوالے سے وقتاً فوقتاً بات چیت کے دوران میں جب کبھی بھی عمومی صورتحال و اِقدامات کا ذکر ہوتا ہے تو سب سے زیادہ زور ’غذائیت کی کمی‘ دور کرنے پر دیا جاتا ہے‘ تندرستی کے حوالے سے امور و اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے ماہرین کے جانب سے اُٹھائے جانے والے نکات سے اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ’غربت‘ اور ’غذائی غربت‘ دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ غذائیت سے خالی اور غذائیت سے بھرپور خوراک کا تعلق مالی وسائل سے زیادہ خوردنی اشیا کے ’درست انتخاب‘ سے ہے۔ ممکن ہے کہ زیادہ پیسے خرچ کر کے اور معروف ناموں والی جگہوں پر کھانے پینے والے ’غذائیت‘ پر سمجھوتا کر رہے ہوں اور دال ساگ کھانے والوں کی غذائی ضرورت پوری ہو رہی ہو‘ خوراک کا انتخاب سوچ سمجھ کر کرنے کےساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ بھوک سے زیادہ کھانا پینا یعنی بسیار خوری کی عادت بھی بیماریوں کا باعث بنتی ہے۔خوراک کے بارے میں سیدھا سادا اصول یہ ہے کہ ”ہم وہی کچھ نظر آتے ہیں جو کچھ ہم کھاتے ہیں“ یعنی کسی شخص (مرد یا عورت) کی خوراک سے اُس کی جسمانی طاقت یا کمزوری عیاں ہوتی ہے‘ قومی اعداد و شمار کے مطابق پاکستانیوں کی اکثریت اپنی جسمانی ضرورت کے مطابق خوراک استعمال نہیں کر رہی‘ دوسری اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کی آبادی میں اکثریت نوجوانوں کی ہے یعنی ملک کی ساٹھ فیصد سے زیادہ آبادی کی عمر تیس سال سے عمر ہے لیکن جس احساس کو سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ غذائی قلت کی وجہ سے یہ نوجوان افرادی قوت بھی خاطرخواہ کارآمد ثابت نہیں ہو رہی کیونکہ یہ جسمانی کمزوری کا شکار ہونے کی وجہ سے بھی افرادی محنت کی صورت میں مثبت نتائج نہیں دے رہی جبکہ غذائیت کی کمی کے باعث مختلف بیماریوں کا شکار ہو کر آبادی کا بڑا حصہ قومی وسائل کی بربادی اُور اپنے خاندانوں کےلئے تناو¿ و مایوسی کا باعث بنا ہوا ہے‘عالمی ادارہ¿ خوراک کی حالیہ رپورٹ میں سال دوہزاراٹھارہ کے ’نیشنل نیوٹریشنل سروے‘ سے اقتباسات کا حوالہ دیتے 
ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی کل تعداد کے نصف بچے جسمانی خامیوں کا شکار ہیں‘ سال دوہزارسترہ کی مردم شماری سے پتہ چلتا ہے کہ سب سے بڑا ڈیموگرافک گروپ پانچ سے نو سال کی عمر کا ہے۔ توجہ طلب ہے کہ نیشنل نیوٹریشن سروے دوہزاراٹھارہ میں جن بچوں کی عمریں 9 سال تھیں وہ اب نوجوان ہونے کے قریب یعنی ’یوتھ بریکٹ‘ کی دہلیز پر ہیں اور ایک ایسی صورتحال کہ جس میں بچوں کو اُن کی جسمانی ضرورت کے مطابق خوراک نہیں ملی کیا اُن کے ناتواں جسم قومی افرادی قوت ہونے کا بوجھ اُٹھا سکیں گے۔ توجہ طلب ہے کہ پاکستان ایک ایسا ملک بھی ہے جو آب و ہوا کی تبدیلی سے متاثرہ اور مزید موسمیاتی تبدیلیوں جیسے خطرات سے دوچار سرفہرست دس ممالک میں شامل ہے اور نہ صرف معاشی طور پر انتہائی کمزور ملک ہے بلکہ ایک ایسا ملک بھی ہے جو آبادی بڑھنے کی رفتار کے لحاظ سے بھی خطرے میں ہے اُور اِن خطرات کا مجموعہ جن مالی نقصانات کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں اُن میں ’غذائی عدم تحفظ‘ قابل ذکر ہے کیونکہ موسمیاتی اثرات کی وجہ سے زرعی پیداوار ہر دن کم ہو رہی ہے‘ ریگستان بڑھ رہے ہیں‘ پانی کی کمی ہے اور گرمی کی شدت میں اضافے جیسے چیلنجوں میں فصل کی فی ایکڑ پیداوار میں کمی غذائی عدم تحفظ (غذائی تغذیہ) کی شدت بڑھا رہی ہے‘ اگر گزشتہ برس (دوہزاربائیس) کے سیلاب کا جائزہ لیا جائے تو متعلقہ ایجنسیوں اور حکام کی جانب سے خوراک تک رسائی اور تقسیم میں مشکلات درپیش رہیں اور پاکستان کی غذائی قلت میں پچاس فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا‘ اِس 
صورتحال میں جب کم غذائیت کی وجہ سے لاغر چہرے دکھائی دیتے ہیں تو خرابی¿ حالات کا اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں رہتا۔ بچوں کا بنیادی اُور قانونی حق ہے کہ اُنہیں جسمانی ضرورت کے مطابق خوراک فراہم کی جائے اُور اُن کا مستقبل بہتر ہونا چاہئے۔ درحقیقت یہی بچے ملک و قوم کا مستقبل جو غذائی عدم تحفظ کی وجہ سے متاثر ہے اور بچوں کی خاطرخواہ جسمانی نشوونما نہیں ہو رہی‘ اقوام متحدہ کے مقرر کردہ پائیدار ترقیاتی اہداف (SDGs) کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو پاکستان اپنے ہاں غذائی قلت دور کرنے اور غذائی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کرنے جیسے قومی ہدف سے پیچھے ہے اُور باقی ماندہ سات برس (دوہزار تیس) تک عملاً ممکن نہیں کہ غذائی ہنگامی صورت حال اور درپیش چیلنجز سے کماحقہ نمٹ لیا جائے گا‘پاکستان کو ہر سال غذائیت اور غذا کی کمی کی وجہ سے تین ارب امریکی ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے جو ملک کی خام قومی پیداوار کے 1.33 فیصد کے مساوی ہے یعنی اگر پاکستان کی غذائی ضروریات پوری ہوں تو تندرست افرادی قوت کی وجہ سے ملک کے پیداواری شعبہ میں ایک فیصد سے زیادہ ترقی ہو سکتی ہے‘ یہ اعداد و شمار متقاضی ہیں کہ ’غذائیت سے متعلق ہنگامی حالت کا اعلان‘ ہونا چاہئے اُور غذا کی کمی اور غذائیت کی فراہمی کےلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے‘ اِس حوالے سے زرعی تحقیق کے ماہرین کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں کہ وہ زیادہ غذائیت والی فصلوں کی اقسام دریافت کرنے کےلئے تحقیق و ترقی کو بڑھاوا دے سکتے ہیں۔ قومی سطح پر غذائی عادات کی اصلاح اور طرز زندگی میں مثبت تبدیلیوں کا انتخاب کرنے کی کوششیں توجہ طلب ہیں‘ بچوں کی صحت و تندرستی سب سے اہم ہے۔ سکولوں سے باہر بچوں کو درس و تدریس کے بندوبست میں لانے اور صحت و غذائیت پر توجہ مرکوز کرنے سے انفرادی ترقی‘ فلاح و بہبود اور قومی خوشحالی کے اہداف حاصل کرنا ممکن ہے۔ ذہن نشین رہے کہ صحت مند دماغ‘ جسم‘ مثبت سوچ اور کارآمد افرادی قوت صرف اُسی صورت میسر آ سکتی ہے جبکہ کسی قوم کے بچے صحت مند اور توانا ہونے کے ساتھ ’غذائی غربت‘ کا شکار نہ ہوں۔