سوئیڈن میں مسجد کے باہر قرآن مجید کے نسخے کو نذر آتش کرنے کی عالمی سطح پر مذمت جاری ہے اور اِس سلسلے میں پاکستان نے مسلم اُمہ کی نمائندگی کرتے ہوئے ’اقوام متحدہ‘ کی ’انسانی حقوق کونسل‘ سے رجوع کیا ہے جہاں پاکستان کی درخواست پر مذکورہ کونسل کا اجلاس طلب کر لیا گیا ہے جس میں اُمید ہے کہ قرآن مجید کو نذر آتش کئے جانے کے اقدام کے علاوہ اسلام کے بارے میں امریکہ اور اِس کے اتحادی مغربی ممالک کے دوغلے معیار کی بھی مذمت کی جائے گی۔ جنیوا میں قائم اقوام متحدہ کی ’انسانی حقوق کونسل‘ کے ترجمان نے ’چار جولائی‘ کے روز صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”مذہبی منافرت میں اضافے پر بحث ممکنہ طور پر رواں ہفتے کے آخر میں ہوگی۔“ اقوام متحدہ اگر یہ سمجھتی ہے کہ دنیا میں ’مذہبی منافرت‘ پائی جاتی ہے تو اِسے یہ بات بھی سمجھنا چاہئے کہ یہ مذہبی منافرت مسلمانوں کی طرف سے نہیں بلکہ مسلمانوں کے خلاف ایک خاص سوچ رکھنے والوں کی ہے جن کا کسی مذہب سے تعلق نہیں کیونکہ دنیا کا کوئی بھی مذہب ’منافرت‘ نہیں سکھاتا۔ نفرت کرنے کا درس نہیں دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ کتھولک عیسائیوں کے سرکردہ مذہبی پیشوا پوپ فرانسیس (بشپ آف روم) نے بھی سویڈن میں قرآن مجید کو نذر آتش کرنے کی مذمت کی اور کہا کہ ”مجھے (اِس طرح کی حرکتوں پر) غصہ آتا ہے اور (اِس قسم کی حرکت کرنے والوں سے) نفرت ہوتی ہے۔“ سویڈن میں اظہار رائے کی آزادی کا غلط استعمال کرنے والے شخص نے پولیس سے اجازت حاصل کر رکھی تھی اور مسجد کے باہر قرآن مجید کو نذر آتش کرنے والے کو پولیس نے تحفظ فراہم کیا‘ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف اسلامی ممالک بلکہ کم و بیش ہر ملک اور سبھی مذاہب و مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والوں نے سویڈن میں پیش آئے مذکورہ واقعے کی مذمت کی اور قرآن پاک کی بے حرمتی کے علاوہ اِس بات کو بھی افسوسناک قرار دیا کہ سویڈن پولیس کی جانب سے قرآن مجید کی بے حرمتی کرنے والے شخص کو یہ فعل کرنے کی اجازت اور سہولت فراہم کی گئی تاہم بعدازاں سویڈن حکومت نے بھی ’اسلاموفوبیا‘ پر مبنی اِس اقدام کی مذمت کی جبکہ بین الاقوامی اسلامی تنظیم نے سویڈن کے حکومتی فیصلہ سازوں پر زور دیا کہ وہ مستقبل میں ’مقدس دینی کتاب‘ کی بے حرمتی روکنے کے لئے خاطرخواہ اقدامات کریں۔ عالمی سطح پر مذاہب سے متعلق اعدادوشمار کے مطابق سویڈن کی کل آبادی کا چھ فیصد مسلمان ہے اور اِن کی تعداد 6 لاکھ سے زیادہ ہے جبکہ سال دوہزاربیس میں سویڈن حکومت نے اپنے ہاں آبادی کے جو اعدادوشمار جاری کئے تھے اُن کے مطابق سویڈن کی آبادی میں ’2 لاکھ 41 ہزار 933 افراد‘ بطور مسلمان رجسٹرڈ ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق سویڈن میں اکثریت عیسائیوں کی ہے جو کل آبادی کا ’61.3 فیصد‘ ہیں جبکہ مسلمان 2.7فیصد ہیں اور سویڈن کی کل ایک کروڑ 3 لاکھ 39 ہزار 255 افراد کی آبادی میں ’36 فیصد‘ یعنی 37 لاکھ 39 ہزار 255 افراد کا کسی بھی مذہب سے تعلق نہیں۔ خاص نکتہ یہ ہے کہ سویڈن 12ویں صدی سے عیسائی ہے اور تب سے 20ویں صدی تک سویڈن میں عیسائیت کے ماننے والوں کی تعداد مسلسل کم ہو رہی ہے جبکہ اسلام تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے اور یہی وجہ ہے کہ جنونی انتہا پسندوں سے یہ حقیقت دیکھی نہیں جا رہی کہ اسلام سویڈن میں تیزی سے پھیل رہا ہے چونکہ سویڈن کے قانون میں ہر کسی کو مذہبی آزادی حاصل ہے اِس لئے اسلام کی تبلیغ کو روکا نہیں جا سکتا لیکن اِس کے خلاف دلیل یا منطق سے بات کرنے کی بجائے نفرت کے اظہار کی راہ اختیار کی گئی ہے جس سے سویڈن میں رہنے والوں مسلمانوں و دیگر مذاہب بشمول عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی بھی دل شکنی ہوئی ہے اور سویڈن کے اندر بھی ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے ’مقدس قرآن مجید‘ کی توہین کی مذمت کر رہے ہیں اور اِسے ’آزادی¿ اظہار‘ کی بدترین مثال بھی قرار دیا جا رہا ہے۔دنیا سویڈن کی مذمت کر رہی ہے۔ مشرق وسطیٰ کے بہت سے ممالک نے بھی سویڈن سے مذہبی منافرت کے خلاف اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا ہے تاہم ’مراکش‘ تمام مسلمان ممالک میں ممتاز ہے کیونکہ اِس نے صرف مذمتی بیان جاری کرنے یا حکومت نے عوام کے ساتھ احتجاج میں شامل ہونے کو کافی نہیں سمجھا اور ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے سویڈن کے اپنے سفیر کو غیر معینہ مدت کے لئے واپس بلا لیا ہے۔ دیگر مسلمان ممالک بھی اگر سویڈن سے اپنے سفارتی تعلقات ختم کریں اور سویڈن سمیت اُن سبھی ممالک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے جو ’قرآن مجید‘ کی بے حرمتی کی کھل کر مذمت نہیں کر رہے تو معاشی مفاد کے پیش نظر اسلام مخالف تحریکوں کی حکومتی سرپرستی نہیں کی جائے گی۔ دنیا میں 8 ارب سے زائد آبادی میں مسلمانوں کی تعداد 2 ارب سے زیادہ ہے اور زیادہ نہیں تو صرف وہ 10 ممالک (انڈونیشیا‘ پاکستان‘ بھارت‘ بنگلہ دیش‘ نائجیریا‘ مصر‘ ایران‘ ترکی‘ الجیریا اور سوڈان) جہاں زیادہ تعداد میں مسلمان آباد ہیں‘ اگر امریکہ اور اِس کے اتحادی یورپی ممالک کا ’معاشی بائیکاٹ‘ کرتے ہوئے اِن ممالک کی مصنوعات اور انٹرنیٹ پر اِن ممالک کی ویب سائٹس و سوشل میڈیا سائٹس کو دیکھنا بند کر دیں تو اِس ’بائیکاٹ‘ سے اسلام مخالف بہت سے دماغ درست بلکہ تندرست ہو جائیں گے۔
پاکستان میں سویڈن واقعے کے خلاف ’احتجاجی مظاہروں‘ کا آج (سات جولائی دوہزارتیئس) بطور قومی دن (یوم ِتقدس ِقرآن) منایا جا رہا ہے۔ اِس دن کی مناسبت سے ملک گیر احتجاج میں پاکستان کی جانب سے دنیا پر واضح کر دیا جائے گا کہ اسلام کے مقدسات کی توہین کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ہے۔ اِسلام اِنتہا پسندی اور نفرت و منافرت کا دین نہیں ہے اور اِسلام کسی بھی صورت توڑپھوڑ کی اجازت نہیں دیتا کیونکہ ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کی عزت و آبرو اور جان و مال کی حرمت واجب ہے اور وہ اِنہیں کسی بھی صورت ہاتھ میں نہیں لیتا۔ جہاں تک مغربی ممالک کی نام نہاد ’اظہار رائے کی آزادی‘ کا تعلق ہے تو مذہب کی توہین جیسے مذموم اقدامات کا جواز پھر بھی نہیں بنتا۔ مغربی دنیا پر یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ قرآن پاک کی بے حرمتی آزادی اظہار رائے سے مختلف و الگ ہے اور اِسے کوئی بھی مسلمان یا کوئی بھی مسلمان ملک برداشت نہیں کرے گا۔ قرآن کی بے حرمتی کے واقعات حالیہ چند مہینوں میں تواتر سے پیش آ رہے ہیں۔جس کا تدارک اب لازمی طور پر ضروری ہے۔