آلودہ پانی 

پاکستان کے شہری و دیہی علاقوں کی صورتحال ایک جیسی ہے جہاں پینے کے صاف پانی کی دستیابی و فراہمی کا نظام مثالی نہیں۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ عوام کی اکثریت آلودہ پانی پینے پر مجبور ہے۔ ملک کے کئی شہروں میں پینے کے صاف پانی کی کمی ’مستقل چیلنج‘ بنی ہوئی ہے کیونکہ پاکستان کے بڑے شہروں میں لاکھوں افراد کو صاف پانی یا یہاں تک کہ بہنے والے پانی تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز (پی سی آر ڈبلیو آر) کی جانب سے جاری ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کراچی میں پینے کا 93فیصد پانی خطرناک حد تک آلودہ ہے۔ دو سال گزر چکے ہیں اور حال ہی میں ملیر کے ایک گاؤں میں گیسٹرو اینٹرائٹس کی وباء پھیلنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ کراچی کے رہائشیوں کی صحت کی حالت کو بہتر بنانے کے لئے خاطرخواہ (معنی خیز) اقدامات نہیں کئے گئے۔ ماہرین صحت نے تصدیق کی ہے کہ اِس طرح کے کیسز میں اضافہ آلودہ پانی اور دیگر مضر صحت غذائی اشیاء کے استعمال کی وجہ سے ہوا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سنٹر(جے پی ایم سی)‘ سول اسپتال (سی ایچ کے) اور انڈس ہسپتال میں ایک ہفتے سے بھی کم عرصے میں آنے والے چار سے زائد مریضوں میں گیسٹرو اینٹرائٹس کی علامات ظاہر ہوئی ہیں۔ اگرچہ پانی کے مسائل کے لئے متعدد عوامل ذمہ دار ہیں لیکن احتساب کا فقدان اِن کی بنیاد ہے۔ مناسب طریقے سے تعمیر شدہ پائپ لائنوں کے ذریعے گھروں کو صاف اور صحت مند پانی فراہم کرنا حکومتی اداروں کا کام ہے لیکن یہ کام خاطرخواہ احتیاط و ذمہ داری سے ادا نہیں کیا جا رہا جس کی وجہ سے کئی شہروں میں پانی کی روزمرہ ضروریات پورا کرنے کے لئے مجبوراً بوتلیں اور ٹینکر خریدے جاتے ہیں۔ شہروں کی صورتحال یہ ہے کہ مختلف ذرائع سے دستیاب پانی صحت مند نہیں۔ کاروباری سیٹ اپ شروع کرنے کے لئے قواعد و ضوابط اور کم سے کم اقدامات کی کمی کا مطلب یہ ہے پانی فراہم کرنے والی کمپنیاں بھی انسانی استعمال کے قابل پانی فراہم نہیں کر رہیں لیکن عوام کی صحت سے کھیلنے والوں کے خلاف بھی کاروائی نہیں کی جا رہی۔ آلودہ پانی پینے سے اسہال و ہیضہ جیسے جان لیوا امراض لاحق ہوتے ہیں۔ صحت کے بیشتر ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے واقعات میں اضافے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کوڑا کرکٹ کو تلف کرنے میں خاطرخواہ احتیاط نہیں کی جاتی۔ اِس سسلسلے میں حکومتی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے منصوبہ تیار کرے۔ کئی ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ جن میں رہائشی علاقوں میں بنا منصوبہ بندی جانور ذبح کرنے کی اجازت دی گئی ہے جو بہت سی خطرناک بیماریوں کے پھیلنے کا باعث بنا ہوا ہے۔ متعلقہ حکومتی ادارے کو مذکورہ پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہوئے پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور بوتلوں میں بند معیاری پانی کی فروخت کے لئے اقدامات کرنا چاہئیں۔