وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے (گزشتہ ماہ بجٹ منظوری کے موقع پر) قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے بعدازملازمت ملنے والی ماہانہ مالی مراعات (پنشن) سے متعلق 3 نکات پیش کئے تھے جن کی تمہید یہ تھی کہ ”پنشن کا مسئلہ برسوں پہلے حل کر لینا چاہئے تھا اُور پنشن خزانے پر ایک بہت بڑا بوجھ ہے جو ہر سال بڑھا رہا ہے۔“ دوسری اہم بات یہ کہی کہ رواں مالی سال (دوہزارتیئس چوبیس) میں پنشن کی مد میں ادائیگیاں 800ارب روپے تک پہنچ چکی ہیں اُور تیسرا یہ کہ وفاقی حکومت ’کنٹری بیوٹری پنشن‘ متعارف کرے گی۔“پنشن اصلاحات کی ضرورت ایک عرصے سے محسوس کی جا رہی ہے تاہم اِس ’مشکل‘ کو ’آسان‘ بنانے کا درست طریقہ یہی ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز مل کر کوئی ایسا درمیانی راستہ نکالیں جس کی وجہ سرکاری ملازمین کی ’بعد مدت ملازمت‘ مالی مشکلات میں اضافہ بھی نہ ہو‘ وہ باعزت زندگی بسر کر سکیں اُور قومی خزانے پر بڑھنے والا بوجھ بھی کم کیا جا سکے۔ یہ ایک غیرمعمولی صورتحال ہے جو غیرمعمولی اقدامات کی متقاضی ہے۔ توجہ طلب ہے کہ پاکستان کے لئے پنشن کی ادائیگی مشکل سے ناممکن کی طرف بڑھ رہی ہے۔ تیزی سے غیرمستحکم ہوتی پنشن بہت بڑی ذمہ داری یعنی کل بجٹ اخراجات کے چھ فیصد سے زیادہ ہے۔ بجلی کے گردشی قرضوں کے ساتھ یہ ملک کو درپیش نہایت ہی خطرناک بحران ہے۔ ایک ایسی صورتحال میں جبکہ قرض لئے بغیر ملک چلانا ممکن نہیں رہا سرکاری ملازمین کو دوران ملازمت اُور بعدازملازمت دی جانے والی مراعات جیسا کہ وراثت میں پنشن کی ادائیگی ختم کرنے کے حوالے سے اصلاحات زیرغور ہیں حکومت سمجھتی ہے کہ اگر پنشن کو موجودہ حالت میں جاری رکھا گیا تو ایک وقت وہ آئے گا جب پنشن ادا کرنے کے لئے قرض لیا جائے گا یا عوام پر پنشن ٹیکس عائد کرنا پڑے گا۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران پنشن اصلاحات سے متعلق متعدد کوششیں بصورت رپورٹس اور کمیشنوں کی سفارشات سامنے آئی ہیں جن میں سرکاری ملازمین کی پنشن کو فروغ دینے کے لئے ایک متعین سسٹم سے لے کر کنٹری بیوشن پنشن کی ضرورت پر زور دیا گیا ہیپنشن ایک خاص وقفے لیکن باقاعدگی سے ادا کی جانے والی مالی ذمہ داری ہے جو حکومت کی طرف سے
قواعد کے مطابق سرکاری ملازمین کو اُن کی خدمات کے بدلے میں دی جاتی ہے۔ پنشن جیسے مالیاتی تحفظ کی وجہ سے سرکاری ملازمت زیادہ پرکشش ہے۔ برصغیر میں پنشن سے متعلق معاملات کو دیکھنے کے لئے ابتدائی قانون سازی 1871ء میں کی گئی جسے ’پنشن ایکٹ‘ کہا جاتا ہے اِس قانون سازی کے تحت جو بنیادی اصول اور شرائط وضع کی گئیں وہ سرکاری محکموں کے لئے خدمات سرانجام دینے والوں کے مفادات اُور حساب کتاب کا طریقہ ’سول سروس ریگولیشنز (سی ایس آر)‘ میں بیان کئے گئے ہیں۔ اگرچہ پنشن قانون اُور اِس سے متعلق قواعد و ضوابط میں گزشتہ چند برسوں کے دوران کئی اصلاحات متعارف کروائیں گی لیکن اب بھی سال 1871ء کا پنشن قانون ہی مختلف ناموں اُور اصلاحات کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ پنشن اصلاحات میں قابل ذکر گریجویٹی اسکیم 1954‘ لبرلائزڈ پنشن رولز 1977ء‘ نظر ثانی شدہ پے اسکیل 2016ء اور نظر ثانی شدہ پے اسکیل 2017ء شامل ہیں۔ پاکستان کے سرکاری ملازمین کی پنشن (سول سرونٹس پنشن اسکیم) سرکاری ملازمین کی شراکت اُور اُن کی مالی اعانت کے بغیر ’بینیفٹ اسکیم‘ ہے۔ اگر کوئی افسر یا اہلکار چاہے تو ساٹھ سال کی عمر میں یا پچیس سال کی سروس مکمل ہونے پر پنشن حاصل کر سکتا ہے اُور ایسی صورت میں اُسے سالانہ مالی فوائد بھی حاصل ہوں گے۔ مالی فوائد کا یہ حساب کتاب اس طرح لگایا جاتا ہے کہ خدمت کے سالوں کی تعداد پنشن کے قابل تنخواہ سے بڑھا دی جاتی ہے۔ مالی فوائد کو مقررہ ماہانہ ادائیگیوں کے طور پر تقسیم کیا جاسکتا ہے جیسا کہ سالانہ یا ایک ہی مرتبہ کل رقم کی ادائیگی کے ذریعے۔ وفاقی اور صوبائی
حکومتیں ریٹائرڈ ملازمین کو ان کی آمدنی کے ذریعے پے اسکیلز کی بنیاد پر پنشن ادا کر رہی ہیں‘ اگر وفاقی اور صوبائی بجٹ کے اعدادوشمار کا جائزہ لیا جائے تو گزشتہ چار برس کے دوران پنشن اخراجات کی صورت مالی درپیش مالی بحران ہر سال بڑھ رہا ہے اُور یہی رفتار جاری رہی تو ملک کو حاصل ہونے والے ٹیکسوں سے کل آمدنی سے اِسے ادا کرنا ممکن نہیں رہے گا۔وزارت خزانہ کی درخواست پر عالمی بینک نے ”پاکستان اسسمنٹ آف سول سروس پنشن (2020) کے عنوان سے رپورٹ تیار کی ہے جس میں موجودہ پنشن اسکیم کے مالی اخراجات اور اِس کی کا جائزہ لیتے ہوئے حقیقی تخمینے لگائے گئے ہیں۔ذہن نشین رہے کہ ’ورلڈ بینک‘ کے مطابق بجٹ اخراجات صوبائی حکومتوں کی ٹیکسوں سے آمدنی (صوبائی مالی محصولات) سے زیادہ ہیں۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ میں دیئے گئے تخمینہ جات سے پتہ چلتا ہے کہ آنے والے برسوں میں بجٹ اخراجات اُور مہنگائی کے تناسب سے سرکاری ملازمین کی ہر سال بڑھتی ہوئی تنخواہوں کے اخراجات میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا رہے گا اُور حکومت اِس قابل نہیں رہے گی کہ وہ فلاح و بہبود کے منصوبے چلا سکے۔پنشن کا نظام تبدیل کرنا صرف مشکل کام نہیں بلکہ ناممکن دکھائی دے رہا ہے اور جب حکومت سرکاری ملازمین پر پنشن شراکت کے لئے دباؤ ڈالے گی تو بلاشبہ اِسے تنقید کا نشانہ بنایا جائے گا جو کوئی بھی سیاسی جماعت نہیں چاہتی۔ قومی خزانے کو مالی طور پر مستحکم بنانے کے لئے پہلے عام انتخابات کے انعقاد اُور اِس کے بعد ایک ایسی سیاسی حکومت کی تشکیل کا انتظار کرنا پڑے گا جو ملک کو درپیش حقیقی مالیاتی بحرانوں کا حقیقی حل تلاش کرے اُور قومی مفاد میں اپنی ساکھ (مقبولیت) کی قربانی دینے کا حوصلہ رکھتی ہو۔ لیکن اس کیلئے بنیادی شرط یہ ہے کہ سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جائے ان سے مشاورت کی جائے ملازمین تنظیموں سے مشاورت ہو اور ماہرین کے ساتھ بات کی جائے بیک جنبش قلم اس طرح کے فیصلے نہیں ہو سکتے جب تک تمام سٹیلک ہولڈر مطمئن نہ ہوں۔بات صرف اس ایک کیس تک محدود نہیں ہر سیکٹر میں اصلاحات کا کام باہمی مشاورت کا متقاضی ہوتا ہے تاکہ فیصلہ کے بعد دوبارہ سے اعتراضات نہ آئیں۔