اب جبکہ قومی اسمبلی کی مدت بھی پوری ہونے والی ہے جس کے بعد لامحالہ نئے انتخابات کے لئے بساط بچھ جانی ہے (اگرچہ اس پر کافی شکو ک وشبہات کااظہار کیاجارہاہے)جس کے بعد ضرورت اس امر کی ہے ایسے انتخابی قوانین پر اتفاق رائے پیداکرنے کی کوشش کی جائے کہ پھر کسی کو بھی انتخابی نتائج پر اعتراض نہ ہوسکے وطن عزیز میں یہ دستورچلا آرہاہے کہ روز اول سے ہی سیاسی جماعتوں کامنیڈیٹ تسلیم نہیں کیاجاتااورزورزبردستی کی مثالیں قائم کی جاتی ہیں قیام پاکستان کے چندروزبعدہی ہمارے صوبہ میں قائم خدائی خدمتگاروں کی حکومت کو ختم کرکے مصنوعی طریقے سے مسلم لیگ کی حکومت قائم کی گئی جس کے بعد یہ روایت چل نکلی چنانچہ پھر جب 1970ء میں پہلے عام انتخابات ہوئے تو اس وقت کی حکومت اسٹیبلشمنٹ اوردوسرے نمبر پرآنے والی جماعت یعنی پاکستان پیپلز پارٹی نے الیکشن میں واضح اکثریت حاصل کرنے والی عوامی لیگ کامنیڈیٹ تسلیم کرنے سے صاف انکار کردیا اور اس کے لئے ملک کو دولخت کرنے کی قیمت اداکرنے سے بھی دریغ نہیں کیاگیا ملک کے دوسرے عام انتخابات ہوئے تو پی این اے نے پیپلزپارٹی کے مینڈیٹ کو جعلی قرار دے کر احتجاجی تحریک شروع کردی اور ملک مارشل لاء کی نذر ہوگیا یوں پہلے دوعام انتخابات نے قوم کو تباہی کے سوا کچھ نہیں دیا اس کے بعد سے ہونیوالے آٹھ انتخابات کی تاریخ اٹھا کردیکھ لیں ہارنے والی جماعتوں نے دھاندلی کے الزامات عائدکرتے ہوئے جیتنے والی جماعتوں کے مینڈیٹ کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کیا اور ملک مسلسل عدم استحکام سے دوچاررہا پی ٹی آئی کی حکومت کو سلیکٹڈ قرار دیاگیا تو پی ڈی ایم کی حکومت کوبیرونی سازش کانتیجہ قراردیاجاتاہے اسی لئے تو سنجیدہ فکر حلقے روز اول سے جامع انتخابی اصلاحات کی ضرورت پر زوردیتے رہے ہیں اس ضمن میں ایک اہم پیشرفت گذشتہ دنوں اس وقت دیکھنے میں آئی جب قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے آئینی ترمیمی بل 2023 منظور کرلیا۔ آئینی ترمیمی بل کے تحت آئین کے آرٹیکل 223 میں ترمیم تجویز کی گئی ہے، کوئی بھی امیدوار بیک وقت قومی اور صوبائی اسمبلی پر زیادہ سے زیادہ دو نشستوں پر الیکشن لڑنے کا اہل ہوگا۔ کسی بھی امیدوار کے دو سے زیادہ حلقوں میں الیکشن لڑنے پر ممانعت ہوگی قائمہ کمیٹی میں جماعت اسلامی کے رکن اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی کی جانب سے پیش کی گئی آئین کے آرٹیکل 223 میں ترمیم سے متعلق آئینی ترمیمی بل کا تفصیلی جائزہ لیا گیا‘مولانا عبدالاکبر چترالی نے مجوزہ بل سے متعلق کمیٹی کوبتایا کہ ایک امیدوار کے متعدد نشستوں پر انتخاب لڑنے سے قومی وسائل ضائع ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئین پاکستان میں ایک سے زیادہ حلقوں میں انتخابات کیلئے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی اجازت ہے مگر جیتنے کے بعد ایک سیٹ رکھی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک سے زیادہ نشستوں پر الیکشن لڑنے کی اجازت دینا مگر صرف ایک سیٹ رکھنا بذات خود عجیب ہے، جو نہ صرف ملکی خزانے پر بوجھ بلکہ امیدواروں اور عوام کے استحصال کے مترادف ہے آئینی ترمیمی بل کے مطابق الیکشن کمیشن کا ایک حلقے پر 2 کروڑ 70 لاکھ تک خرچ آتا ہے‘کاغذات کی چھپائی پر 70 لاکھ، ذرائع آمدورفت پر 30 لاکھ جبکہ انتخابی عملہ کی ادائیگیوں پر 1 کروڑ 30 لاکھ خرچ آتا ہے‘ قائمہ کمیٹی نے آئینی ترمیم منظور کرلی جس کے مطابق کوئی بھی امیدوار بیک وقت زیادہ سے زیادہ دو نشستوں پر الیکشن لڑنے کا اہل ہوگا جبکہ کسی بھی امیدوار کے دو سے زیادہ حلقوں میں الیکشن لڑنے پر ممانعت ہوگی‘آئینی ترمیم کے تحت امیدوار دونوں نشستوں پر منتخب ہونے کی صورت میں 30 دن کے اندر ایک نشست سے مستعفی ہونے کا پابند ہوگا، مذکورہ تیس دن کے گزرنے پر ماسوائے دوسری نشست کے پہلی نشست خالی ہوگی‘اب جتنا جلد ہوسکے اس بل کی قومی اسمبلی سے منظوری حاصل کرکے ایکٹ کاحصہ بنادیناچاہئے تاکہ اگلے عام انتخابات سے ہی اس پرعملدرآمد شرو ع کیا جاسکے ویسے بھی ایک سے زیادہ نشستوں پر الیکشن لڑنے کی اجازت دینا ووٹروں کے ساتھ امتیازی سلو ک بھی ہے کیونکہ ووٹرکو تو اپنے حلقے سے باہر ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں مگر باہر والے بندے کو اس کے حلقے میں الیکشن میں حصہ لینے کی پوری آزادی حاصل ہے نیا قانون اس امتیازی سلو ک کے خاتمہ کیلئے بھی ناگزیر ہے کیونکہ آئین میں تمام شہریوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں دوسری طرف یہ امر بھی خوش آئندہے کہ سترہ جون کو الیکشن کمیشن کے اختیارات میں اضافے کیلئے سینیٹ میں مسودہ قانون کی منظوری دی گئی جس کے مطابق الیکشن کمیشن کو صدر سے مشاورت کئے بغیر یکطرفہ طور پر انتخابات کی تاریخوں کے اعلان کا اختیار دیدیاگیاہے ترمیمی بل کے ذریعے الیکشن ایکٹ کی سیکشن 57 میں ترمیم کی گئی ہے جسکے تحت الیکشن کمیشن نیا شیڈول اور عام انتخابات کی تاریخ کااعلان کریگا جبکہ الیکشن پروگرام میں ترمیم بھی کر سکے گا انتخابی قانون میں اس ترمیم سے ارکان پارلیمنٹ کی تاحیات نااہلی کا باب بھی بندکردیاگیا ہے‘بل کے متن کے مطابق آئین میں جس جرم کی مدت ِسزا متعین نہیں، اس میں نااہلی پانچ برس سے زیادہ نہیں ہوگی اورمتعلقہ شخص قومی یا صوبائی اسمبلی کا رکن بننے کا اہل ہو گا حکومت کے مطابق یہ ترامیم الیکشن کمیشن کے کردار کو مزید فعال بنائیں گی اور انتخابی شیڈول میں بھی تبدیلیاں ممکن بنائیں گی،یہ ترمیم ابہام کو دور کرنے کیلئے لائی جارہی ہے نئے قانون کی ضرور ت اس ابہام کودور کرنے کیلئے ضروری تھی جو نااہلی کی مدت کے تعین کے معاملہ پر آئین کی خاموشی سے پیدا ہوا تھا سینیٹ میں منظور کیا جانیوالا مسودہ قانون امید ہے کہ الیکشن کمیشن کو مستحکم جمہوری ملکوں کی طرح مداخلت سے آزاد رہتے ہوئے فیصلے کرنے کی سہولت مہیا کریگا جبکہ سیاسی قائدین کو غیرضروری طور پر تاحیات نااہل قرار دیئے جانیکا سلسلہ بھی بند ہوجائیگا تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے ارکان سینیٹ نے الیکشن کمیشن کو انتخابات کی تاریخ کے تعین کا مکمل اختیار دینے سے اختلاف کیا ہے ا س کی وجہ شاید موجودہ الیکشن کمیشن کے کردار پر دونوں جماعتوں کاعدم اعتماد ہے تاہم اگر الیکشن کمیشن خود کو غیر جانبدارادارہ ثابت کرے تو مستقبل میں یہ اختیار تمام سیاسی جماعتوں کیلئے قابل قبول ہو جائیگا یہ بھی حقیقت ہے کہ مزید انتخابی اصلاحات کی بھی گنجائش ہے جس کیلئے سیاسی جماعتوں کو ایک میز پر بیٹھناہوگا کیونکہ متفقہ انتخابی اصلاحات کے بغیر الیکشن کے نتائج متنازعہ بننے سے روکنا ممکن نہیں۔