سویڈن میں ایک عراقی نژاد شخص سلوان مومیکا کی جانب سے عیدالاضحی کے روز دارالحکومت سٹاک ہوممیںقرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعے کے خلاف پاکستان سمیت پوری اسلامی دنیا میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے‘شاتم قرآن عراقی نژاد شخص سلوان پانچ سال قبل تارکِ وطن کے طور پر پناہ لینے سویڈن آیا تھاایک بین الاقوامی نشریاتی ادارے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سلوان مومیکا نے اچانک گستاخی کا منصوبہ نہیں بنایا تھا بلکہ اس ضمن میں کافی عرصہ قبل سویڈش حکام سے مسجد کے سامنے مظاہرہ کرنے کی اجازت مانگی تھی‘پولیس کی جانب سے اجازت نہ دینے پر معاملہ عدالت میں چلا گیا اور تین ماہ تک کیس چلتا رہا اور بالآخر عدالت نے ایسا کرنے کی اجازت دے دی کیونکہ سویڈن کے آئین کے مطابق احتجاج کا حق بنیادی حق ہے‘سویڈش اسلامک ایسوسی ایشن کے صدر عمر مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ سویڈن کے رویے میں بڑی تبدیلی آئی ہے اور اب یہاں اسلاموفوبیا بڑھ رہا ہے جس کا اظہار ناصرف انٹرنیٹ پر ملتا ہے بلکہ یہاں بسنے والے مسلمانوں کی زندگیاں بھی اجیرن بن چکی ہیں اور ان کی تضحیک کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا۔سویڈن کی سڑکوں پر مسلم خواتین کو ہراساں کرنا، مسلمانوں کے گھروں کو نقصان پہنچانا روز کا معمول بن چکا ہے‘اگرچہ وزیراعظم وولف کرسٹرسن نے واقعے کی مذمت کی ہے تاہم ان کی جماعت سویڈن ڈیموکریٹ پارٹی ماضی میں ایک انتہائی دائیں بازو کی جماعت رہی ہے جو کبھی نازی نظریے پر یقین رکھتی تھی اور وہ اب بھی نسل پرست اور امیگریشن مخالف ہے۔ان کا یہ موقف ہے کہ مسلم ممالک سے نقل مکانی کرکے سویڈن آنے والوں کو روکنے کے لئے قانون پر سختی سے عمل درآمد ہونا چاہئے۔یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے محققین کے ایک گروپ نے فرانس، برطانیہ، جرمنی، ہالینڈ اور سویڈن میں اسلاموفوبیا پر تحقیق کی ہے۔اس گروپ سے منسلک ایک محقق عبدالقادر این جی کا دعوی ہے کہ مسلمانوں کے بارے میں سویڈن کا رویہ 1990 کی دہائی کے اوائل میں تبدیل ہونا شروع ہوا۔2014 کے ایک سروے سے پتا چلا کہ سویڈن کی آبادی کی بڑی تعدادکے خیال میں اسلام یورپی طرز زندگی کے لئے خطرہ ہے‘2016 میں ایک اور سروے میں 57 فیصد لوگوں نے یہ رائے دی کہ سویڈن آنے والے مہاجرین قومی سلامتی کے لئے خطرہ ہیں اور یہ بیانیہ بنیاد پرست دائیں بازو کی جماعتیں استعمال کر رہی ہیں؛اسلامو فوبیا نہ صرف سویڈن میں بلکہ پوری دنیا میں بڑھ رہا ہے‘روس کی جانب سے جنگ مسلط کئے جانے کے بعد یوکرین سے نقل مکانی کر کے آنے والے شہریوں کا مشرق وسطیٰ کے ممالک سے آنے والوں سے موازنہ کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ یوکرینی مہاجرین شام کے پناہ گزین نہیں ہیں، وہ یوکرین کے پناہ گزین ہیں وہ عیسائی ہیں اور وہ سفید فام ہیںاس لئے وہ زیادہ توجہ کے مستحق ہیں‘سویڈن کی پولیس کا کہنا ہے کہ انہیں ان لوگوں کی جانب سے احتجاج کے لئے نئی درخواستیں موصول ہوئی ہیں جو ناصرف قرآن بلکہ تورات اور بائبل کی بھی بے حرمتی کرناچاہتے ہیں‘سویڈن میں کچھ لبرل مبصرین بھی اب یہ سوچ رہے ہیں کہ اس طرح کے احتجاج کو نفرت کی کاروائیوں کے طور پر دیکھا جانا چاہیے، کیونکہ وہ ایک مخصوص نسلی گروہ کو نشانہ بنا رہے ہیں، جو سویڈن کے قانون کے مطابق ممنوع ہے‘تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نیٹو کی رکنیت کے لئے سویڈن کی امیدوں کو چھ ماہ کے دوران ایک اور دھچکا لگا ہے سویڈن اور فن لینڈ نے یوکرین پر روسی حملے کے بعد فوجی غیر جانبداری کی اپنی دیرینہ پالیسی کو ترک کرتے ہوئے گذشتہ سال نیٹو کی رکنیت کے لئے درخواست دی تھی۔رکنیت کے لئے نیٹو کے تمام رکن ممالک کی منظوری درکار ہوتی ہے لیکن ترکیہ اور ہنگری نے ابھی تک سویڈن کی درخواست کی حمایت نہیں کی ہے۔