گھریلو توانائی کو سولرائز کرنا

گزشتہ پانچ سال میں لائف لائن صارفین کےلئے بجلی کے نرخوں میں 70فیصد اضافہ ہوا ہے ‘بجلی کی قیمتوں میں اضافے نے موثر طریقے سے ایک ایسے منظرنامے کو جنم دیا ہے جہاں کھپت برابر رہ گئی ہے کیونکہ بجلی گھرانوں کےلئے قابل برداشت نہیں ہے‘ دوسری طرف حکومت نے توانائی کی سبسڈی میں ایک ٹریلین روپے سے زیادہ خرچ کئے ہیں‘اضافی بجلی کی گنجائش کے باوجود ملک بھر میں لوڈشیڈنگ روزانہ کی بنیاد پر چھ سے آٹھ گھنٹے کے درمیان ہے، کیونکہ حکومت کے پاس درآمدی توانائی خریدنے کے لئے فنڈز نہیں ہیں‘ اس سال بجلی کی سپلائی پچھلے سال کے مقابلے میں کم ہے، جس سے لوگوں کےلئے مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے، خاص طور پر وہ لوگ جو سب سے زیادہ کمزور معاشی طبقے سے ہیں ‘بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کسی بھی بجلی کی کھپت کی مزید حوصلہ شکنی کرتا ہے کیونکہ مانگ کی قیمت میں لچک کو عملی جامہ پہنایا جاتا ہے‘لائف لائن صارفین کی تعریف ایسے گھرانوں سے کی جاتی ہے جو 200 یونٹ (کلو واٹ گھنٹے) تک بجلی استعمال کرتے ہیں‘ حکومت کی طرف سے فراہم کردہ زیادہ تر سبسڈیز ان لائف لائن گھرانوں کی مدد کےلئے استعمال کی جاتی ہیں تاہم سبسڈی کے باوجود ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کا ایک ناکارہ ڈھانچہ اکثر ایسے منظر نامے کا باعث بنتا ہے جہاں یہ گھرانے غیر متناسب طور پر لوڈشیڈنگ کے ذریعے بجلی کی بندش سے متاثر ہوتے ہیں چونکہ توانائی کی کھپت جزوی طور پر درآمدی توانائی پر منحصر ہے، حکومت کی جانب سے توانائی درآمد کرنے میں ناکامی ایک ایسے منظر نامے کی طرف لے جاتی ہے جہاں اضافی صلاحیت کی دستیابی کے باوجود بجلی کی بندش ہوتی ہے۔ایک اندازے کے مطابق ملک میں رہائشی صارفین کا تقریباً 55فیصد لائف لائن صارفین ہیں‘ ان میں سے کچھ گھرانوں کی کھپت کو شمسی توانائی کی طرف منتقل کرنا مکمل طور پر ممکن ہے‘ان گھرانوں کو بجلی پیدا کرنے والا بنانا ممکن ہے، جو اضافی بجلی گرڈ کو بیچتے ہوئے اپنی پیدا کردہ بجلی استعمال کر سکتے ہیں‘ اس کے نتیجے میں موثر طریقے سے منی گرڈز کی تخلیق ہو سکتی ہے، جس
 میں کسی علاقے میں چھتوں پر شمسی تنصیبات گرڈ کو بجلی فروخت کرنے کےلئے ایک ساتھ جمع کر سکتے ہیں اور اسے ان کے استعمال کے خلاف موثر طریقے سے بند کر سکتے ہیں۔مثال کے طور پر پنجاب کے معاملے میں 2021ءکے اعداد و شمار کے مطابق کل 18.6 ملین گھرانوں میں سے تقریباً 10.7 ملین گھرانے ایسے ہیں جن کی لائف لائن صارفین کے طور پر درجہ بندی کرنا ممکن نہیں ہے) ایسی اسکیم کا انتخاب کریں، 25 فیصد ڈاﺅن پیمنٹ جسے حکومت فنڈ کر سکتی ہے پھر بھی لائف لائن صارفین کی مدد کےلئے سالانہ بنیادوں پر مختص کی جانے والی انرجی سبسڈی کی رقم سے کم ہوگی۔فی الحال چھت پر شمسی توانائی زیادہ تر متمول گھرانوں کے ذریعہ استعمال کی جاتی ہے جن کے پاس تنصیب کے لئے ضروری پیشگی سرمایہ ہے‘ سالانہ سبسڈی ختم کرنے کے بجائے، یہاں ایک کیس بنایا جا سکتا ہے کہ حکومت لائف لائن صارفین کےلئے رعایتی یا ترجیحی نرخوں پر روف ٹاپ سولر کی فنانسنگ کی سہولت فراہم کرتی ہے‘یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ لائف لائن صارف اپنی تاریخی کھپت کے لحاظ سے جزوی طور پرایکیا 2 کلو واٹ کے سولر سسٹم سے اپنی ضروریات پوری کر سکتا ہے‘ سازوسامان تک رسائی حاصل کرنے کےلئے 20 فیصد کی ڈاﺅن پیمنٹ فرض کرتے ہوئے حکومت اس میں سے آدھی رقم دے سکتی ہے، جب کہ آدھی رقم گھر والوں کے ذریعے دی جا سکتی ہے‘ بقیہ رقم ایک مالیاتی ادارہ رعایتی شرح پر فراہم کر سکتا ہے، اس طرح کہ آلات سے وابستہ ماہانہ ادائیگی زیادہ تر
 گھر کے ماہانہ بجلی کے بل کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے‘اس سے اس بات کو یقینی بنایا جا سکتا ہے کہ ماہانہ بل درحقیقت ایڈجسٹ کیا جا سکتا ہے کیونکہ گھر بجلی پیدا کرتا ہے، اور گرڈ کو فروخت کرتا ہے‘ مزید برآں، چند سالوں میں، گھریلو شمسی تنصیب کی مکمل ادائیگی کر سکتا ہے، جس سے ڈسپوزایبل آمدنی میں اضافہ کے ذریعے بڑے پیمانے پر فائدہ ہو گا۔مزید برآں یہ سرمایہ کاری کےلئے موجودہ سبسڈی مختص کرتا ہے جو پائیدار طور پر قابل تجدید بجلی پیدا کر سکتا ہے جبکہ کیش فلو کے بہتر انتظام اور بجلی تک بلا تعطل رسائی کے لحاظ سے گھرانوں کو نمایاں طور پر فائدہ پہنچا سکتا ہے۔بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں یہاں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں‘ ہر بجلی کی تقسیم کار کمپنی بخوبی جانتی ہے کہ کسی خاص گھرانے کی کھپت کیا ہے‘ کھپت اور ادائیگی کے میٹرکس کی دستیابی کے ذریعے یہ موجودہ گھرانوں کا کریڈٹ اسیسمنٹ کر سکتا ہے‘ کریڈٹ اسیسمنٹ کی بنیاد پر، اہل گھرانوں تک فنانسنگ کی توسیع کی جا سکتی ہے‘اس سے پہلے کہ اس طرح کی اسکیم کو شروع کیا جائے یہ ضروری ہوگا کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے ڈسٹری بیوشن انفراسٹرکچر کو اپ گریڈ کیا جائے تقسیم کار کمپنیوں کی صوبوں میں منتقلی ممکنہ طور پر صوبائی سولرائزیشن اسکیم کی ترقی کو متحرک کرسکتی ہے‘روف ٹاپ سولرائزیشن ایک مہتواکانکشی منصوبہ ہے، لیکن ایسی چیز جس پر بہت سے دوسرے دائرہ اختیار میں کامیابی سے عمل کیا گیا ہے سبسڈی کے موجودہ پول کو سب سے زیادہ کمزور گھرانوں کےلئے زیادہ مستحکم، کم لاگت اور قابل تجدید توانائی کا ذریعہ بنانے کےلئے دوبارہ مختص کیا جا سکتا ہے اس کےلئے یقینی طور پر گرڈ انفراسٹرکچر میں بھاری سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی، لیکن ممکنہ اقتصادی اور سماجی منافع جو کہ اسکیم پیدا کر سکتی ہے ممکنہ طور پر ان مالی اخراجات سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے جو پہلے ہی کمبل انرجی سبسڈی کی صورت میں خرچ کئے جا رہے ہیں‘لوگوں کی خدمت کےلئے حکومت یا تو آسان، مہنگا، غیر موثر راستہ اختیار کر سکتی ہے یا اس طریقے سے سرمائے کو دوبارہ مختص کر سکتی ہے جس سے پورے گھرانوں کی فلاح و بہبود میں اضافہ ہو۔