حکومت نے کم زرعی پیداوار‘ غذائی عدم تحفظ اور غذائی درآمدات جیسے مسائل سے نمٹنے کے لئے خوراک کی کمی کا سامنا کرنے والے خلیجی ممالک اور چین کی مالی و تکنیکی اعانت سے ’زرعی حکمت عملی‘ تیار کی ہے جسے ’لینڈ انفارمیشن اینڈ مینجمنٹ سسٹم سینٹر آف ایکسیلینس‘ کا نام دیا گیا ہے اور ’طریقہ¿ علاج‘ سے غذائی عدم تحفظ کی صورتحال کو غذائی خودکفالت سے تبدیل کیا جائے گا جس کے لئے ظاہر ہے کہ کاشتکاری کے روایتی طریقہ کار کو تبدیل کرنے پر توجہ اور وسائل مرکوز کئے جائیں گے‘ اِس کے علاوہ چھوٹے پیمانے پر مرغ بانی کے فروغ اور مال مویشیوں کو پالنے کے لئے بھی ضروری وسائل و تربیت فراہم کی جائے گی جس سے زرعی معیشت و معاشرت رکھنے والے دیہی علاقوں میں انقلاب برپا ہو گا۔ مقامی سطح پر غذائی تحفظ کی صورتحال بہتر ہونے سے زرعی اجناس (پھل و سبزی) برآمد کئے جائیں گے جس کے لئے پہلے سے خلیجی ریاستوں کی منڈیاں پاکستان جیسے زرخیز زرعی ممالک میں زرعی ترقی اور اِس سے حاصل ہونے والی ممکنہ زرعی پیداوار کی راہ دیکھ رہی ہیں جبکہ چین کے پاس زرعی ٹیکنالوجی کی صورت بیش بہا تجربہ موجود ہے اور اگر ’چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک)‘ منصوبے میں زرعی ٹیکنالوجی کی پاکستان منتقلی جیسا فائدہ حاصل کرنے کی بھی کوشش کی جائے تو اِس سے غذائی خودکفالت کا ہدف نہ صرف بہت ہی کم وقت میں حاصل کیا جا سکے گا بلکہ چین کی زرعی ٹیکنالوجی جو خلائی سیارے سے نگرانی اور موسمیاتی تبدیلیوں پر گہری نظر رکھنے پر مبنی ہے پاکستان کے لئے مفید ثابت ہو سکتی ہے اور اِس سے زرعی پیداوار میں خاطرخواہ اضافہ کیا جا سکے گا۔ قابل ذکر ہے کہ ’لینڈ انفارمیشن اینڈ مینجمنٹ سسٹم سینٹر آف ایکسیلینس‘ کی کوشش اگرچہ پاکستان کی جانب سے کی گئی ہے اور ایسا پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ صنعتوں کی بجائے زراعت پر توجہ دیتے ہوئے مقامی ضرورت سے زیادہ زرعی اجناس کی عالمی منڈیوں میں موجود طلب (مانگ) کو مدنظر رکھا گیا ہے اور جب بات ’زرعی ترقی‘ کی ہوئی تو خلیجی ممالک نے پاکستان کی مدد کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا۔ سعودی عرب نے فوری طور پر 50 کروڑ (500 ملین) ڈالر جیسی غیرمعمولی امداد کا اعلان کیا جو ظاہر ہے کہ زرعی شعبے میں تعاون کا صرف آغاز ہے اور اگر صرف سعودی عرب ہی کی جانب سے ملنے والے اِن پچاس کروڑ ڈالر کا دیانتداری سے استعمال کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان اِس سے ہویدا ہونے والے ’سبز انقلاب‘ سے سرسبز ہو جائے گا اور موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات کم کرنے کے علاو¿ہ اِن سے متاثرہ افراد کی غذائی مدد بھی اپنے ہی وسائل سے کرنا ممکن ہو جائے گی۔ ’لینڈ انفارمیشن اینڈ مینجمنٹ سسٹم سینٹر آف ایکسیلینس‘ کے تحت ہونے والی زراعت خلائی سیاروں سے حاصل کردہ معلومات پر منحصر ہو گی جو پہلے سے موجود اور خصوصی سیاروں کے ذریعے ’جیوگرافک انفارمیشن سسٹم (جی آئی ایس) پر مبنی ہوگی‘ جس کے 4 بنیادی مقاصد و فوائد ہوتے ہیں۔ 1: جی آئی ایس کی مدد سے فصلوں کی کاشت سے متعلق فیصلہ اور زیرکاشت رقبے کی ضروریات کا تعین اور بہتر فصل کے لئے مرحلہ وار منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ 2: جی آئی ایس کی مدد سے حاصل ایک مرتبہ کی محنت اور تجربے کی کامیابی کی صورت حاصل ہونے والے نتائج دیگر علاقوں کے لئے بھی کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔ 3: جی آئی ایس کی مدد سے ایسے علاقوں کی نشاندہی زیادہ درست طریقے سے ممکن ہوتی ہے جہاں کی مٹی کسی وجہ سے خراب ہو رہی ہے یا کوئی دریا زمین کا کٹاو¿ کر رہا ہے تو ایسی صورت میں متعلقہ زرعی ادارے کے لئے فوری کاروائی کرنا ممکن ہوتا ہے جس سے کسی فصل یا باغات کو نقصان پہنچنے کا خطرہ کم ہو جاتا ہے اور جی آئی ایس کا زرعی شعبے میں استعمال کا عمومی چوتھا فائدہ یہ ہے کہ اِس کی وجہ سے پانی کی بچت ہوتی ہے۔ آبپاشی کے نظام کی اصلاح ہونے کی وجہ سے فصلوں کو کم پانی سے سیراب کیا جا سکتا ہے اور پانی کے ذخائر کی حفاظت بھی ممکن ہوتی ہے۔ یہ چاروں ایسے بنیادی طریقے ہیں جن سے کئی ممالک بشمول سرفہرست چین فائدہ اُٹھا رہا ہے۔ ’جی آئی ایس‘ کے ذریعے کسی مقام کے بارے میں موسمیاتی اور زمین کی سطح اور زیرسطح صورتحال بارے کوائف جمع کئے جا سکتے ہیں اور یہ طریقہ ’جدید کاشتکاری‘ کہلاتا ہے اندازہ ہے کہ جی آئی ایس سے 22 ملین (2 کروڑ 20 لاکھ) ایکڑ ایسی سرکاری زمین پر کاشتکاری کی جائے گی جس پر فی الوقت کاشت کاری نہیں ہو رہی اور اِس تصور کو پیش کرتے ہی سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کے علاو¿ہ چین نے بھی سرمایہ کاری پر رضامندی کی صورت دلچسپی کا اظہار کیا ہے تاہم پاکستان کو توقع ہے کہ وقت کے ساتھ سعودی عرب اور خلیجی ممالک ابتدائی سرمایہ کاری میں اضافہ کریں گے جبکہ چین کی جانب سے زرعی ٹیکنالوجی کی منتقلی اور چین کے خلائی سیاروں کا استعمال کرنے جیسی اہم (ضروری) پیشرفت ممکن ہو سکے گی۔ یہ شاید پہلی ’کثیر الجہتی حکمت عملی‘ ہے جو بیک وقت زراعت سے متعلق درپیش چیلنجوں کو ہنگامی بنیادوں پر ہدف بناتے ہوئے ڈیزائن کی گئی ہے اور یہ ملک میں بڑھتے ہوئے غذائی عدم تحفظ‘ خوراک اور زرعی درآمدی بل میں کمی لانے کے علاوہ اور زرعی برآمدات کے ذریعے معیشت کو سہارا دے گی۔ فیصلہ سازوں کو اس حقیقت کا ادراک بالاخر ہوگیا ہےکہ پاکستان کا روشن و محفوظ مستقبل نیز مہنگائی سے نجات کی واحد صورت بھی ’زرعی ترقی‘ ہی میں پنہاں ہے اور ’لینڈ انفارمیشن اینڈ مینجمنٹ سسٹم سینٹر آف ایکسیلینس‘ کی کامیابی سے بنیادی و ضمنی مسائل حل ہوتے چلے جائیں گے۔ ’لینڈ انفارمیشن اینڈ مینجمنٹ سسٹم سینٹر آف ایکسیلینس‘ کے ذریعے روزگار کے مواقعوں میں بھی اِضافہ ہوگا جو اپنی جگہ ایک اہم ضرورت ہے تاہم ’لینڈ اِنفارمیشن اَینڈ مینجمنٹ سسٹم‘ کے درست اقدام کے حوالے سے چند خدشات بھی موجود ہیں‘ پاکستان کی 37 فیصد آبادی ’غذائی عدم تحفظ‘ کا شکار ہے اور ان افراد کا پانچواں حصہ ’شدید غذائی بحران‘ کا سامنا کر رہا ہے۔ قومی فیصلہ سازوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ آب و ہوا (موسمیاتی تبدیلیوں) کے منفی اثرات‘ مٹی کے کٹاو¿‘ زمین کی تقسیم اور فی ایکڑ اجناس کی کم پیداوار جیسے دیرینہ و گہرے ساختی (کثیرالجہتی) مسائل سے نمٹنے کے لئے فوری حکمت عملی مرتب کریں۔ اگر ملک کے چھوٹے کاشتکاروں کو سہارا نہ دیا گیا اور زرعی ترقی کے لئے اصلاحی اقدامات نہ کئے گئے تو مشکلات میں اضافہ ہی ہوتا رہے گا۔