موسمیاتی تبدیلی کے خطرات

عالمی درجہ حرارت میں اضافے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے سائنس دان کافی عرصے سے خبردار کرتے آرہے ہیں لیکن عام لوگوں کی طرح حکومتوں نے بھی اس بات کو سنجیدہ لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔گزشتہ چند برسوں کے دوران موسمیاتی کیفیات کی غیر معمولی تبدیلی پاکستان میں محسوس ہونے لگی ہے۔ شدید گرمی کی لہر، خشک سالی اور سیلاب سے بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہورہا ہے اور غذائی بحران بھی سراٹھانے لگا ہے۔موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے معاشرے کے غریب اور پسماندہ طبقے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ پاکستان انتہائی موسمیاتی تبدیلیوں سے وابستہ خطرات سے سب سے زیادہ دوچار دس ممالک میں سے ایک ہے۔عالمی ادارے کی حالیہ رپورٹ کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان اپنے سالانہ جی ڈی پی کا نو فیصد کھو سکتا ہے۔ گرمی کی شدید لہراور بے وقت ،بے موسم بارشوں نے بھی پاکستان کی زرعی پیداوار کو شدید طور پر متاثر کیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اس نوعیت کے موسمی واقعات میں مزید اضافے سے پاکستان میں غذائی تحفظ کے شدید خطرات سے دوچار ہوسکتا ہے۔ایشیائی ترقیاتی بینک نے موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے گندم، گنا، چاول، مکئی اور کپاس کی پیداوار میں نمایاں کمی کی پیش گوئی کی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ غذائی عدم تحفظ سے نمٹنے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے مضر اثرات کے تدارک کے لئے بر وقت اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان کوبڑے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔پاکستان کے شمال مغربی حصے گلگت بلتستان، ہزارہ کے بالائی علاقوں اور ملاکنڈ ڈویژن کے گلیشیئرز جو ملک میں پانی کے بنیادی ذرائع ہیں درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافے کی وجہ سے یہ گلیشئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں جس سے بڑے پیمانے پر سیلاب آنے کا خطرہ ہمیشہ سر پر منڈلاتا رہتا ہے۔چترال، سوات، دیر، شانگلہ، بونیر، کوہستان اور گلگت بلتستان میں ان سیلابوں کی وجہ سے کئی بستیاں صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہیںمون سون کی شدید بارشیں پنجاب اور سندھ کی زرخیز زمینوں میں اچانک سیلاب، جائیداد کو نقصان اور زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھنے کا سبب بنتی ہیں۔ یہ صورتحال ہر سال بہتر ہونے کے بجائے بدتر ہوتی جارہی ہے۔بے وقت بارشوں اور خشک سالی کی وجہ سے گندم کی فصل سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے آٹے کی قیمتوں میں گذشتہ دو سالوں کے اندر غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ بیس پچیس روپے کلو کا آٹا آج ایک سو تیس روپے کلو فروخت کیا جارہا ہے۔پاکستان میں درآمدی گندم کاتقریبا چالیس فیصد یوکرین سے حاصل کرتا تھا جو دنیا میں گندم کا پانچواں سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔ روس یوکرین جنگ کی وجہ سے گندم کی برآمد اور عالمی سپلائی متاثرہوئی ہے جو گندم اور آٹے کی قیمتوں میں اضافے کی ایک وجہ ہے۔جنگ مزید طول پکڑنے کی صورت میں گندم کی قیمت مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔جسسے ملک کے زرمبادلہ کے قلیل ذخائر پر مزید دبا پڑے گا۔اگر یہ رجحان مزید کچھ عرصہ جاری رہتا ہے تو پہلے سے جاری اقتصادی مصائب کا شکار حکومت کے اخراجات بڑھ جائیں گے، جو مالی اور کرنٹ اکانٹ خسارے میں مزید اضافے کا باعث ہو گا۔پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے وابستہ نئی حقیقتوں کے مطابق خود کو ڈھالنے کے لیے پائیدار زرعی ترقیاتی طریقوں اور منصوبوں میں سرمایہ کاری کر سکتا ہے۔جن میں زیادہ پیداوار دینے والی فصلوں کی جانب منتقلی، پانی کا موثر طور پر انتظام، پانی کے ضیاع میں کمی لانا، پانی کی کمیابی سے نمٹنے اور زرعی پیداوار میں اضافے کے لیے چھوٹے و درمیانے سائز کے ڈیموں کی تعمیر وغیرہ شامل ہے۔کاربن کے اخراج میں کمی پاکستان کے لیے گلوبل وارمنگ کے اثرات میں کم کرنے میں مددگار ہوسکتی ہے ۔ ملک کے تمام بڑے شہروں میں ماس ٹرانزٹ منصوبے متعارف کروانے اورتیل کے بجائے بجلی سے چلنے والی گاڑیوں پر منتقلی پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگاجس سے تیل کی درآمد کے بھاری بھرکم بل میں کمی لانے میں بھی مدد ملے گااور تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے سبب ہونے والی مہنگائی سے بھی عوام الناس کو کچھ سکھ ملے گا۔