کرہ ارض شدید گرمی کی لپیٹ میں

عالمی ادارہ موسمیات (ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن ’ڈبلیو ایم او‘) نے فرانس کے شہر پیرس سے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ ماہ جولائی (دوہزارتیئس) کا آغاز (پہلا ہفتہ) دنیا کا ’گرم ترین‘ ہفتہ رہا جس کے بعد عالمی درجہ¿ حرارت میں کچھ کمی دیکھی گئی ہے اور یہ دونوں عوامل (گرمی کا اچانک بڑھنا اور اچانک ہی اِس میں اَزخود کمی) تشویشناک ہے۔ ’ڈبلیو ایم اُو‘ نے بیان میں کا کہنا لاحق غور ہے کہ اِبتدائی اعداد و شمار کے مطابق رواں ماہ کا پہلا ہفتہ ریکارڈ پر سب سے گرم ہفتہ رہا‘ موسمیاتی تبدیلی اور ’ال نینو‘ موسمی پیٹرن کے اِبتدائی مراحل ہیں۔ جون ریکارڈ پر دنیا کا سب سے زیادہ ’گرم مہینہ‘ رہا۔ یہ ایک سال کے نصف حصے میں ریکارڈ شدہ درجہ¿ حرارت میں اضافے کا تازہ ترین سلسلہ ہے جس کی وجہ سے پہلے ہی سپین و دیگر ممالک میں خشک سالی اور چین سے لیکر امریکہ تک ’شدید گرمی‘ کی لہر دیکھی جا رہی ہے۔ ڈبلیو ایم او کے مطابق گرمی بڑھنے کی وجہ سے زمین کی سطح اور سمندروں کے پانی یکساں گرم ہوئے ہیں اور اِس کے ’ماحولیاتی تنوع اور ماحولیات پر ممکنہ طور پر تباہ کن اثرات“ مرتب ہو رہے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ گزشتہ برس (دوہزار بائیس کے دوران) گرمی کی لہر (ہیٹ ویو) کی وجہ سے یورپی ممالک میں ’61 ہزار افراد‘ ہلاک ہوئے تھے۔ اگرچہ اِن اموات کے دیگر محرکات بھی تھے لیکن ماہرین کے مطابق موسم کی تبدیلی کے ساتھ بیماریاں بھی شدت اختیار کرتی جا رہی ہیں۔ ماہرین موسمیات اِس بات کی اُمید کر رہے ہیں کہ دنیا کو ’گرمی کی لہر‘ سے بچانے کے لئے اجتماعی کوششیں دیکھنے میں آئیں گی اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو آئندہ سال (دوہزار چوبیس) میں مزید گرمی کے باعث زراعت کو پہنچنے والے نقصانات میں بھی اضافہ ہو گا اور یہ ہمارے سیارے (زمین) کے لئے ایک پریشان کن خبر ہے۔ یورپی ممالک کی آب و ہوا کی نگرانی کرنے والے ادارے 
’کوپرنیکس (Copernicus)‘ نے بھی اعداد و شمار جاری کئے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ 1940ءکے بعد سے گرمی میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے تاہم جولائی کا پہلا ہفتہ اِس پورے عرصے کا سب سے زیادہ گرم رہا جس دوران دنیا کے اوسط درجہ حرارت میں اضافہ دیکھا گیا۔ موسمیاتی تبدیلی علامی سطح پر ہنگامی حالت کا اعلان ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ ”اِس وقت کی صورتحال یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی قابو سے باہر ہو رہی ہے اور اِس کی وجہ سے فصلوں کے خشک ہونے‘ برفانی تودوں (گلیشیئرز) کے پگھلنے اور جنگل کی آگ جیسے خطرات بڑھ گئے ہیں جبکہ معمول سے زیادہ درجہ حرارت کی وجہ سے ہیٹ اسٹروک اور ڈی ہائیڈریشن سے لے کر امراض قلب (دل کے تناو¿) جیسے صحت کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ موسمیاتی اثرات کے انسانی زندگی پر اثرات کے حوالے سے کی گئی ایک حالیہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ گزشتہ برس یورپ میں ریکارڈ توڑ گرمی دیکھی گئی جس دوران اکسٹھ ہزار اموات ہوئیں اور اگر گرمی کی لہر برقرار رہی تو مزید ہلاکتیں ہوں گی۔ ’جرنل نیچر میڈیسن‘ نامی جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق یورپ میں گرمی کی وجہ سے ہونے والی اموات میں زیادہ تر 80 سال سے زائد عمر کے افراد تھے اور گرمی کی وجہ سے مرنے والوں میں 63 فیصد خواتین تھیں!مجموعی طور پر دیکھا جائے تو 1800ءسے 
2023ءتک کے عرصے میں عالمی درجہ¿ حرارت میں ”2.1 سنٹی گریڈ“ اضافہ ہو چکا ہے‘ جس کی وجہ وہ ماحول دشمن عوامل ہیں‘ جو قدرت کے قائم کردہ توازن کو بگاڑ رہے ہیں۔ درختوں کی افادیت سے آگاہ ہونے کے باوجود درختوں کی کٹائی ہو رہی ہے۔ آب و ہوا کے لئے نقصان دہ گیسوں اور آلودہ پانی کا اخراج روکنے کی بجائے اِس میں اضافہ ہو رہا ہے اور اگرچہ ماحول کے بارے میں انسان کا عمل سطحی نہیں رہا لیکن ماحول کے تحفظ کے لئے سطحی سوچ پائی جاتی ہے۔ وقت ہے کہ گرمی کے شدید اثرات کم کرنے کے لئے ہر شخص انفرادی اور اجتماعی کوششوں کا حصہ بنے۔ ماہرین موسمیات بار بار خبردار کر رہے ہیں کہ گرمی کی جاری لہرحیاتیاتی نظام کا احترام نہ کرنے کی وجہ سے ہے جس کے باعث کچھ علاقوں میں شدید خشک سالی اور سمندروں میں پانی کی سطح بڑھ رہی ہے اور سمندری طوفان بھی ’شدید گرمی‘ پیدا کرنے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں اور ساحلی شہروں میں معمول سے زیادہ بارشوں کی وجہ سے معمولات زندگی متاثر ہیں۔ انفرادی و اجتماعی احساس ذمہ داری کے ساتھ کرہ¿ ارض کے حیاتیاتی تنوع اور اِس کے تحفظ بارے سوچنا اب صرف ضروری نہیں رہا بلکہ انسانی بقا کے نکتہ¿ نظر سے لازم ہو چکا ہے۔اس سلسلے میں تمام ممالک کو اب سنجیدگی کے ساتھ لائحہ عمل طے کرنا ہوگا کہ کس طرح موسمیاتی تبدیلی کا راستہ روکا جاسکتا ہے اور اس کے نیتجے میں ہونے والے نقصانات سے بچا جا سکتا ہے ۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ یہ سب کچھ ترقی یافتہ ممالک کی وجہ سے ہورہا ہے جن کی نا دانشمندانہ پالیسیوں نے صورتحال کو اس موڑ پر پہنچا دیا ہے کہ اب روئے زمین پر زندگی کے اسباب خطرے میں پڑ گئے ہیں اور انسانوں کو جس صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس کا حل نکالنا اب اشد ضروری ہے۔ یعنی اب یا کبھی نہیں کی صورتحال بن گئی ہے جس سے نکلنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے ۔