فلسطینی مسلمانوں کو دنیا کے ساتھ ساتھ خود عالم اسلام نے بھی مکمل طورپرنظرانداز کردیاہے اب تو اسرائیلی جارحیت سب کے نزدیک معمولی بات بن چکی ہے اسی وجہ سے اسرائیل کے حوصلے مسلسل بلندہوتے جارہے ہیں ا س تناظر میں ایک سوال، مثال کے طور پر، یہ ہوسکتا ہے کہ مقبوضہ فلسطین میں غیر معمولی مزاحمت کیوں ہورہی ہے؟ یا، ایک اور سوال یہ کہ اسرائیل اپنی طاقت اور جدید تر اسلحہ کے باوجود فلسطینی مزاحمت کی کمر توڑنے میں کیوں ناکام ہے؟ ان سوالوں کے جواب پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سال جنوری سے لے کر اب تک کم و بیش200فلسطینی مقبوضہ مغربی کنارہ اور غزہ میں فوت ہوچکے ہیں۔ ا±ن میں بچوں کی تعداد27 ہے۔ اگر آپ فلسطینی قصبوں، دیہات اور پناہ گزیں کیمپوں کے حالات کا جائزہ لیں اور فلسطین کے مسلح ردعمل کو سمجھنے کی کوشش کریں تو معلوم ہوگا کہ ان میں براہ راست تعلق ہے۔ غزہ، جنین اور نابلوس نے اسرائیلی تشدد کی بھاری قیمت چکائی ہے چنانچہ یہی وہ علاقے ہیں جہاں سے اسرائیل کے خلاف زبردست مزاحمت ہوئی ہے۔ ایسے میں حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ فلسطینی پناہ گزیں تحریک آزادی فلسطین کی اولین صف میں رہ کر لڑ تے آرہے ہیں جس کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ وہ چاہے جنین ہو یا بلاطہ، عقبت جبر ہو یا جبلیہ، نصیرت ہو یا پناہ گزینوں کے دیگر علاقے، یہ مسلح مزاحمت کے غیر معمولی مراکز ہیں۔ اسرائیل جتنا زیادہ اس مزاحمت کو کچلنے کی کوشش کرتا ہے، یہاں سے ا±تنا ہی زبردست ردعمل ہوتا ہے۔جنین کی مثال کے ذریعہ اس بات کو سمجھئے۔ پناہ گزینوں کے اس کیمپ نے اپریل2022 کے قتل عام کے بعد سے مزاحمت میں کبھی تاخیر نہیں کی، اس کی جانب سے ہر ممکن طریقہ سے مزاحمت جاری رہی اس حقیقت کے باوجود کہ بہت سے بہادر نوجوان جو اسرائیل کی جارحیت کے خلاف لڑتے تھے، وہ انتفاضہ دوم میں یا تو کام آئے یا پھر ا±نہیں جیل میں ڈال دیا گیا۔ مگر اب نئی نسل منصہ شہود پر آچکی ہے اس لئے اسرائیل کی جارحیت میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ جنین میں فوجی کارروائی معمول بن گیا
ہے جس کی وجہ سے زخمی ہونے والوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے حالانکہ اسرائیل جتنا تشدد برپا کرتا ہے ا±سے بھی ا±تنا نقصان ا±ٹھانا پڑتا ہے۔ حالیہ مہینوں میں اسرائیلی جارحیت کا سب سے بڑا مظاہرہ 26 جنوری کو ہوا تھا جب اسرائیل نے کیمپ پر یلغار کی اور10 فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ ا±تار دیا جبکہ20 سے زائد فلسطینی زخمی ہوئے۔ یہ جارحیت اس حقیقت کے باوجود ہے کہ جتنا زیادہ تشدد اسرائیل برپا کرتا ہے ا±تنی زیادہ مزاحمت فلسطینیوں کی جانب سے ہوتی ہے۔ اب یہ کاروائی اور جوابی کارروائی جنین تک محدود نہیں رہ گئی ہے بلکہ قریب کی یہودی آبادی، فوجی چیک پوسٹ اور دیگر مقامات تک پھیل گئی ہے۔ اسرائیل اپنی کاروائیوں کو دفاعی حکمت عملی قرار دیتا ہے مگر اسے دفاعی حکمت عملی مان لینا سادہ لوحی ہوگی۔ فوجی طاقت کے ذریعہ کسی علاقے یا خطے پر قابض ہونے والی حکومت کی کاروائی کو دفاعی حکمت آزمانے والا نہیں کہا جاسکتا۔ دفاع کی تدابیر خود مختار ملک کرتے ہیں جو بیرونی خطرات سے یا اندرونی خلفشار سے نمٹنے کیلئے کوشاں رہتے ہیں۔ اسرائیل دیگر ملکوں جیسا خود مختار ملک نہیں ہے بلکہ عالمی برادری کی نظر میں اس کی حیثیت ایک قابض ملک کی ہے۔ اس کے باوجود اس پر قانونی ذمہ داری یہ ہے کہ جس آبادی پر اس کا ”قبضہ “ ہے وہاں کے عوام کی حفاظت کرے۔ یہی بات اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے اپنے ایک بیان میں20 جون کو کہی تھی مگر اسرائیلی حکومت عوام کے تحفظ کی فکر نہیں کرتی بلکہ ا±نہیں نقصان پہنچاتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس کے باوجود اِس کا حوصلہ کیوں بڑھتا رہتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ عالمی برادری بیانات جاری کردینے ہی کو اپنی ذمہ داری سمجھتی ہے جن میں اسرائیل کو ا±س کی ذمہ داری یاد دلائی جاتی ہے یا تشویش کا اظہار کیا جاتا ہے یا مذمت کی جاتی ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں کہا جاتا۔ کبھی تو یہ بھی ہوا ہے کہ امریکہ نے فلسطینیوں کو مور دالزام ٹھہرایا۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ فلسطین کے عوام مزاحمت بھی ترک کردیں؟مگر مزاحمت اس کی پروا نہیں کرتی کہ کس نے کیا بیان جاری کیا ہے۔ مزاحمت کار زیادہ تر غریب فلسطینی ہیں جو پناہ گزینوں کی زندگی گزار رہے ہیں۔ کوئی قوم، آبادی یا فرد کب مزاحمت کرتا ہے؟ ظاہر ہے کہ جب ا±س پر ظلم ہوتا ہے یا اس کی تحقیر کی جاتی ہے یا اس کے حقوق کو پامال کیا جاتا ہے۔ اگر فلسطینی مزاحمت سے باز آجائینگے تو کیا اسرائیل تشدد اور جارحیت سے باز آجائیگا؟ نہیں۔ اِس وقت فوجی سربراہ (وزیر دفاع) یواآگیلنٹ ہیں جو نتین یاہو کے حریف ہیں‘وہ چاہتے ہیں کہ فلسطینیوں کے خلاف جارحیت میں اضافہ ہو۔ اسی طرح دائیں بازو کے بازلیل اسموٹرک (وزیر مالیات) چاہتے ہیں کہ تشدد بڑھے تاکہ یہودی بستیاں بسانے کا جواز پیدا ہوتا رہے۔ قومی سلامتی کے وزیر اتمار بین گووِر خانہ جنگی کی صورت حال پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے میں نیتن یاہو کی کوشش ہے کہ ہر وزیر کو اپنی سی کرنے کا تھوڑا بہت موقع ملتا رہے کیونکہ وہ مخلوط حکومت کی سربراہی کررہے ہیں۔ جہاں تک امریکہ اور دیگر مغربی ملکوں کا تعلق ہے وہ ”اسرائیل کے اندرونی معاملات“ میں دخل اندازی سے گریز کو فوقیت دیتے ہیں مگر ا±نہیں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ صورت حال کیا ہے، کون کس کو کس طرح ا±کسا رہا ہے۔ یہاں جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ معمول کے مطابق نہیں ہے،خلاف معمول ہورہا ہے لہٰذا اس کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ اب جو انتفاضہ ہوگا وہ مسلح ہوگا اور عوامی ہوگا جس کے نتائج کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا البتہ یہ ضرور کہاجاسکتاہے کہ اگر عالم اسلام کی مجرمانہ خاموشی اور عالمی برادری کے بے حسی یہی رہی توپھر فلسطینی مسلمانوں کالہو بہتارہے گا ۔