زرعی شعبے کو درپیش مشکلات میں وسائل اور اِنسانی وسائل کی کمی بھی شامل ہے جو دیگر عوامل کے ساتھ مل کر اِس شعبے کو درپیش بحران کی شدت میں اضافے کا باعث ہے۔ جب ہم زرعی چیلنجز کی بات کرتے ہیں تو اِس میں غیر ہنر مند مزدور‘ وقتی روزگار‘ دیہی علاقوں سے شہری علاقوں کی طرف نقل مکانی کا رجحان اور صنفی عدم مساوات جیسے مسائل اُبھر کر سامنے آتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کی کل خام پیداوار کو اگر پانچ حصوں میں تقسیم کیا جائے تو اِس میں ایک حصہ زراعت سے حاصل ہو رہا ہے‘ جو ظاہر ہے کہ بہت ہی کم ہے اور زرعی شعبے کو اگر خاطرخواہ اہمیت دی جائے اور اِس شعبے میں تحقیق و ترقی (ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ) سب سے زیادہ نظر انداز دکھائی دیتی ہے اور پاکستان میں زراعت کا زیادہ تر انحصار ’غیر ہنرمند مزدوروں‘ پر ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں سرفہرست تین وجوہات ہیں۔ دیہی علاقوں میں شرح خواندگی و تربیت کا معیار اور اِس کی سطح‘ زرعی تربیتی اِداروں کی کمی اور زرعی شعبے میں محنت مزدوری کرنے والوں کی کم اُجرت۔ اِن تین محرکات کی وجہ سے زراعت خاطرخواہ ترقی نہیں کر رہی کیونکہ ہمارا کاشتکار جدید زرعی ٹیکنالوجی یا زراعت کے جدید سائنسی طریقوں کو سمجھنے اور اِن سے استفادہ کرنے سے قاصر ہیں۔ اس سے کسانوں کے لئے دیگر ممالک کے ساتھ مقابلہ کرنا بھی مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ وہ مسابقتی قیمت پر اعلی معیار کی مصنوعات تیار نہیں کر پاتے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹل اکنامکس (PIDE) میں زراعت‘ غذائی تحفظ اور ماحولیاتی تحقیق جیسے موضوعات کا احاطہ کیا جاتا ہے۔ پائیڈ کی ایک رپورٹ کے مطابق ”زراعت پر توجہ مرکوز کرنے والے پیشہ ورانہ تربیتی اداروں کے ذریعے دیہی تعلیم کے نیٹ ورک کو وسعت دی جانی چاہئے جس سے شہری و دیہی علاقوں میں شرح خواندگی اور تعلیمی معیار کے فرق کو دور کرنے سے زرعی پیداواری صلاحیت و کارکردگی میں اضافہ اہم کردار
ادا کرسکتا ہے۔ اس طرح کی حکمت عملی اپنا کر فرسودہ زرعی توسیعی نظام اور درآمد شدہ اختراعات پر انحصار بڑی حد تک کم کیا جا سکتا ہے جبکہ صرف زرعی پیداوار ہی حاصل کرنا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ اِس کے ساتھ ’زراعت میں ’ویلیو ایڈیشن‘ کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور زرعی ویلیو چینز کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔ بنیادی ضرورت یہ ہے کہ اگر زرعی علوم سے استفادہ کرتے ہوئے اصلاحات و اختراعات کی جائیں گی تو اِس سے زرعی ترقی ایک مربوط عمل کی صورت منظم انداز میں حاصل ہو سکے گی۔ پاکستان کے لئے زراعت کی اہمیت معاشی ریڑھ کی ہڈی جیسی ہے جس کے ذریعے مستقبل محفوظ بنایا جا سکتا ہے اور تجارتی عدم توازن (خسارے)
کو توازن سے بدلا جا سکتا ہے۔“زراعت کی ترقی کو ملک کے دیگر شعبوں سے الگ کر کے نہیں دیکھا جانا چاہئے۔ اگر پاکستان میں زراعت ترقی نہیں کر رہی تو دیگر معاشی شعبوں پر بھی یکساں جمود طاری ہے اور سبھی خرابیاں اور ضرورتیں جو دیگر شعبوں کی کارکردگی کو متاثر کئے ہوئے ہیں اُن کا تعلق زرعی شعبے سے بھی ہے جیسا کہ ’صنفی عدم مساوات۔‘ خواتین زرعی افرادی قوت کا اہم بلکہ اہم ترین حصہ ہیں لیکن ان کی زراعت میں شمولیت محدود ہے اور خواتین کی حیثیت زمین کی ملکیت‘ قرض اور اِن کے لئے تربیت کے مواقع محدود ہیں۔ صنفی تفاوت خواتین کی معاشی خودمختاری اور زرعی شعبے کی ترقی میں کردار ادا کرنے کی صلاحیت تو رکھتی ہے اور یہ صلاحیت موجود بھی ہے لیکن اِسے محدود سے توسیع
دینا ضروری ہے۔ لمحہ¿ فکریہ ہے کہ ایک ایسا ملک کہ جس کی 75فیصد خواتین یعنی 75 فیصد افرادی قوت برسر روزگار نہ ہو وہاں جب زرعی شعبے میں صنفی عدم مساوات دور کرنے کی بات کہی جاتی ہے تو تصور کیا جا سکتا ہے کہ حکومت اور نجی شعبے کے لئے یہ کس قدر ”بڑا کام“ ہے اور اِس بڑے کام کو سرانجام دینے کے لئے حکومت اور نجی شعبے کے درمیان نہ صرف تعاون بلکہ ایک دوسرے پر اعتماد کا فقدان بھی پایا جاتا ہے۔ خواتین کی تعلیم و تربیت تک رسائی‘ خواتین کے لئے چھوٹے خود روزگار مواقع (اِنٹر پرینیورشپ) اور زرعی شعبے سے متعلق پالیسیاں بناتے ہوئے صنفی حساس پہلوو¿ں کو مدنظر رکھنا‘ اِس پوری صورتحال کو پیچیدہ بنا رہی ہے۔پاکستان میں زرعی مزدوروں کی اکثریت کو نہایت ہی کم اجرت ملتی ہے اور اِن کے کام کاج کے حالات بھی انتہائی خراب ہیں‘ جنہیں درست کرنے کےلئے حکومتی ادارہ (لیبر ڈیپارٹمنٹ) کی مداخلت نہ ہونے کے برابر ہے ۔تحفظ‘ تک رسائی کے بغیر یعنی اپنے حصے کی مشقت سے زیادہ مشقت کرتے ہیں اور یہی وہ منفی محرک ہے جس کی وجہ سے زرعی شعبے کا استحکام و ترقی متاثر ہے ہماری نوجوان نسل بہتر معاشی مواقعوں کی تلاش کے لئے شہروں کی جانب ہجرت کرنے کو ترجیح دے رہی ہے‘ جس کی وجہ سے دیہی علاقوں میں زرعی افرادی قوت میں کمی ہے اور اِس صورتحال سے نمٹنے کے لئے زراعت کو زیادہ منافع بخش (پرکشش) بنانا ہوگا جو یقینا حکومت کا کام ہے اُور اِس چیلنج سے نمٹنے کے لئے زرعی قرضوں کی فراہمی‘ تربیتی پروگراموں و رہنمائی جیسے اقدامات نوجوانوں کو کاشتکاری کی طرف راغب کر سکتے ہیں۔ ضرورت صرف حوصلہ افزائی کی ہے۔ ضرورت صرف سہارے اور پشت پناہی کی ہے۔ ضرورت کاشتکاروں اور کاشتکار افرادی قوت کو اِس اہمیت سے روشناس کرنے کی ہے کہ وہ بھی انتہائی اہم ہیں اور قومی ترقی میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔