مفت علاج معالجہ : سہولیات معطل

خیبرپختونخوا میں ’صحت کارڈ پلس پروگرام‘ کے تحت جگر اور گردے کی پیوند کاری اور سرطان (کینسر) کے مریض پریشان ہیں کیونکہ مفت علاج معالجہ کی یہ سہولت معطل ہے۔ محکمہ¿ صحت کے ایک ذمہ دار نے تصدیق کی ہے کہ اگر صوبائی (نگران) حکومت کی جانب سے متعلقہ بیمہ (انشورنس) کمپنی کو واجبات کی ادائیگی نہیں کی جاتی تو ’صحت کارڈ پلس پروگرام‘ معطل کردیا جائیگا تاہم اب تک یہ علاج جاری ہے‘ مفت علاج کے منتظر اور جاری علاج والے مریضوں کےلئے یہ صورتحال اِس لحاظ سے بھی پریشان کن ہے کہ اِس حوالے سے خاطرخواہ معلومات فراہم نہیں کی جا رہیں۔ نگران حکومت نے صحت کارڈ پلس (ایس سی پی) پر ایسے مریضوں کو مفت ادویات کی فراہمی روک دی جن کے علاج معالجے کےلئے چار لاکھ یا اِس سے زائد رقم (فنڈز) درکار ہوتے ہیں البتہ چند ایسی مثالیں بھی ذکر کی گئی ہیں جن میں مستحق اور فوری علاج کی طلب رکھنے رکھنے والے ایسے مریضوں کو کہ جن کےلئے چار لاکھ سے زیادہ رقم کی ضرورت تھی‘ اُن کی تفصیلات ایک کمیٹی کو ارسال کی گئی ہےں‘ جس نے مذکورہ ’صحت کارڈ پلس پروگرام‘ کے مخصوص فنڈز سے ادائیگی کی منظوری دی ہے۔ پروگرام پر عملدرآمد کرنے والی فرم اسٹیٹ لائف انشورنس کمپنی نے اُنتیس اپریل کو ’صحت کارڈ پلس (ایس سی پی)‘ کے منتظم اعلیٰ (چیف ایگزیکٹیو آفیسر) کو ایک خط کے ذریعے مطلع کیا تھا کہ ”مفت علاج معالجے کےلئے مختص کئے گئے مالی وسائل (ریزرو فنڈ اکاو¿نٹ) کم ترین سطح پر پہنچ چکا ہے اور اب سوائے اِسکے کوئی چارہ نہیں رہا کہ صوبائی حکومت کی جانب سے بقایا جات ادا کئے جائیں اور جب تک یہ بقایا جات ادا نہیں کر دیئے جاتے اُس وقت تک مذکورہ فنڈ سے علاج جاری نہیں رکھا جا سکے گا“ تاہم اُمید کی کرن موجود ہے جیسا کہ محکمہ¿ صحت کے حکام نے ایک سوال کے جواب میں اِس بات کی تصدیق کی ہے کہ ”صوبائی (نگران) حکومت رواں ماہ کی بیس تاریخ (آئندہ ہفتے) تک فنڈز جاری کر دے گی اور یہ منظوری حاصل کرنے کےلئے تمام ضروری کاغذی کاروائی (فائل ورک) مکمل کر لیا گیا ہے۔“ بیمہ کمپنی کی جانب سے درخواست میں صوبائی حکومت کے ساتھ کئے گئے وعدے کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ علاج معالجے کی سہولت فنڈز کی فراہمی سے مشروط ہے اُور جب تک مختص مالی وسائل میں رقم جمع نہیں کروائی جاتی اُس وقت تک علاج کی بیمہ سہولت معطل رکھی جائےگی ذہن نشین رہے کہ ’صحت کارڈ پلس‘ پر عمل درآمد کرنےوالا ادارہ‘ جو اِس حکمت عملی (پروگرام) کے نفاذ پر بھی نظر رکھتا ہے ہر ماہ پینل میں شامل ہسپتالوں کو ادائیگی کرتا ہے جس کےلئے ’ریزرو فنڈز‘ کا استعمال کیا جاتا ہے اور اِس فنڈ میں کم سے کم 50 کروڑ (500 ملین) روپے موجود رہنے چاہئیں جبکہ اکاونٹ کا موجودہ بیلنس صفر (زیرو) ہو چکا ہے! ذہن نشین رہے کہ جگر کی پیوند کاری کےلئے 50 لاکھ جبکہ گردے کی پیوندکاری کےلئے کم
 سے کم 14 لاکھ روپے درکار ہوتے ہیں‘ فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے گردے کے امراض میں مبتلا 13 ہزار مریضوں کا علاج معالجہ معطل ہے‘2 ہزار کینسر کے مریضوں کےلئے بھی مفت علاج کا سلسلہ رک گیا ہے جو صحت کارڈ پلس کے تحت ’انسٹی ٹیوٹ آف ریڈیوتھراپی اینڈ نیوکلیئر میڈیسن (آئی آر این یو ایم) اور دیگر طبی تدریسی اداروں میں فراہم کی جانے والی علاج معالجے کی خدمات سے استفادہ کرتے تھے ’صحت کارڈ پلس‘ ایک کامیاب حکمت عملی تھی جسکے تحت بیماری کی انتہائی شدید حالت میں مریضوں کا ’انتہائی نگہداشت (آئی سی یو)‘ میں بھی علاج کیا جاتا تھا محکمہ صحت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر حکومت انشورنس کمپنی کو تیرہ ارب روپے ادا کرے تو علاج کی مفت سہولیات (سروسز) دوبارہ بحال ہو سکتی ہیں لیکن دوسری کوئی ایسی صورت نہیں جس میں بیمہ کمپنی اپنے طور پر فنڈز جاری کر دے۔ اِس بات کابھی امکان ہے کہ حکومت ’صحت کارڈ پلس‘ کے منتظم ادارے (ایس ایل آئی سی) کو پریمیم کی مد میں ’آٹھ ارب روپے‘ ادا کرےگی ’صحت کارڈ پلس‘ کے تحت علاج معالجے کی اب تک مفت سہولیات سے استفادہ کرنےوالوں کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ صوبائی (نگران) حکومت نے خیبرپختونخوا کی تمام آبادی کےلئے ’ہیلتھ انشورنس‘ سے متعلق حکمت عملی کو واپس لینے کےلئے غوروخوض اور ضروری کاغذی کاروائی کا پہلے ہی آغاز شروع کر رکھا ہے اور غربت کی بنیاد پر لوگوں کو ہیلتھ کوریج دی جا رہی
 ہے۔ مجوزہ طریقہ کار کے مطابق اس پروگرام کے تحت دو تہائی آبادی کو اخراجات میں حصہ داری کے فارمولے پر علاج معالجے کی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔صحت کارڈ پلس ’تحریک انصاف‘ کے دور حکومت کی کارکردگی میں ”کار ہائے نمایاں (فلیگ شپ پروگرام)“ کے طور پر شمار کیا جاتا ہے جس کا آغاز سال 2016ءمیں خیبرپختونخوا کے 4 اضلاع سے کیا گیا تھا۔ ابتدا میں اِس حکمت عملی کے تحت صوبے کی صرف چار فیصد آبادی کو علاج معالجے کی مفت سہولیات فراہم کی گئیں جس کے بعد دسمبر 2020ءمیں اِس پروگرام کو وسعت دیتے ہوئے خیبرپختونخوا کی پوری آبادی کےلئے صحت کارڈ کے تحت علاج معالجے کی سہولیات کا دائرہ وسیع کر دیا گیا تھا۔ فی الوقت معطل ’صحت کارڈ پلس‘ کےلئے اگر فنڈز جاری کر دیئے جاتے ہیں تو فوری طور پر مفت علاج کی خدمات دوبارہ شروع ہو سکتی ہیں ’صحت کارڈ پلس‘ ایک کامیاب حکمت عملی رہی جس کا اندازہ اِن اعدادوشمار سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ اب تک اِسی حکمت عملی کے تحت قریب ڈیڑھ سو مریضوں کے گردے کی مفت پیوند کاری کی گئی جبکہ پچاس ایسے مریض بھی دعا گو ہیں جنہیں جگر کی مفت پیوند کاری کی سہولت میسر ہوئی بصورت ِدیگر اِن مریضوں کےلئے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اپنے وسائل سے ’پچاس لاکھ روپے‘ جیسا مہنگا علاج کروا سکتے۔ اعدادوشمار کے مطابق اِس وقت 12 مریض جگر کی پیوندکاری کے منتظر ہیں جنکے ضروری تجزئیات (ٹیسٹ) اور دستاویزات مکمل کر لی گئی ہیں لیکن ڈاکٹروں کو فنڈز کے اجرا¿ کا انتظار ہے۔ صوبائی حکومت نے جاری مالی سال کے بجٹ میں ”مفت علاج معالجہ پروگرام“ کے لئے مالی وسائل فنڈز مختص نہیں کئے جس کی وجہ سے موجودہ صورتحال پیدا ہوئی ہے اور علاج معالجے کا سلسلہ اچانک روک دیا گیا ہے۔ اِس سے قبل بھی صحت کارڈ کے تحت علاج معالجہ کئی مرتبہ معطل ہو چکا ہے جیسا کہ رواں برس کے اپریل میں دیکھا گیا لیکن چونکہ علاج معالجہ ایک حساس معاملہ ہے اِس لئے صرف ایک ہی دن معطل رہنے کے بعد اکیس ارب روپے جاری کر دیئے گئے تھے۔ حالیہ چند ہفتوں میں صحت کارڈ پر علاج 9 مئی کو معطل ہوا‘ جسے گیارہ مئی کو بحال کرتے ہوئے اِس میں توسیع کی گئی لیکن مسئلے کا کوئی بھی مستقل و پائیدار حل تلاش نہیں کیا جا رہا۔ صحت کارڈ پلس کے تحت علاج کے منتظر ایک مریض نے اِس بات پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے جو کچھ کہا اُس کا بیان اور پوچھے گئے ایک سوال کی تلخیص یہ ہو سکتی ہے کہ ”نمودونمائش اور آسائشوں پر مبنی سرکاری کاموں کےلئے مالی وسائل (فنڈز) تو فوری طور پر دستیاب بھی ہو جاتے ہیں اور سرکاری ملازمین کی مراعات کےلئے بھی فنڈز بروقت مختص ہوتے ہیں لیکن جہاں جہاں اور جس جس شعبے میں عوام کو سہولیات یا رعایت (سبسڈی) میسر ہوتی ہے‘ وہاں وہاں فنڈز کی کمی آڑے آتی ہے‘ شاید عوام دوست طرزحکمرانی کےلئے ابھی بہت طویل جمہوری سفر طے کرنا باقی ہے!“