اگر یہ کہاجائے کہ پاکستان کی سیاست کے سب سے کامیاب نباض اس وقت مولانا فضل الرحمن ہیں تو غلط ہرگز نہ ہوگا مولانا کی خوبی یہ ہے کہ وہ بہت دھیمے انداز میں سیاسی کھیل کھیلنے کے قائل ہیں کبھی بھی جلدباز ی نہیں کرتے نہ ہی سیاست میں گھاٹے کے فیصلوں پریقین رکھتے ہیں‘ حریف تو ایک طرف اگر حلیف بھی راہ غلط کربیٹھیں تو بہت دلچسپ انداز میں ان کوپیغام پہنچاتے ہیں ہمیںیاد ہے کہ 2008ءکے انتخابات کے بعد جب نئے صدارتی الیکشن کے مراحل طے پارہے تھے تو ایک نیوز چینل کو اپنے انٹرویومیں پی پی پی کے رہنما آصف علی زرداری نے جوپیپلز پارٹی کی طرف سے صدارتی امیدوار تھے ‘نے مسلم لیگ ن کو کی گئی یقین دہانیوں کے حوالہ سے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ معاہدے قرآن وحدیث تو نہیں ہوتے یہ بدلے بھی جاسکتے ہیں گویا وہ یہ کہناچاہ رہے تھے کہ ن لیگ کے ساتھ جومعاملات طے پائے ہیں ان کی پابندی ضروری نہیں اگلے روز مولانا فضل الرحمن پشاور میں ایک تقریب میں شرکت کے لئے پہنچے جے یو آئی کاصوبائی دفتر ان دنوں جامعہ ہادیہ میں ہوا کرتاتھا جے یو آئی بھی ان دنوں پی پی پی کی اتحادی اور وفاقی حکومت میں شراکت دار تھی‘ پروگرا م سے قبل میڈیا ٹاک کے دوران مولانانے بیان داغ دیاکہ آصف زرداری کے مذکورہ بیان کے بعد اب ہمیں بھی بہت کچھ سوچناہوگا کیونکہ بہت سی یقین دہانیاںتوہمیں بھی کرائی گئی ہیں‘ یہ بیان فوری طورپر نشر ہوا مولانا نے تاک کے تیر مارا تھاکیونکہ اگلے روزصدارتی امیدوار کی حیثیت سے آصف زرداری نے کاغذات نامزدگی جمع کرانے تھے ‘مولانا کاقیام فیڈرل لاجز میں تھا راقم کی صبح ناشتے کے بعد ان کے سا تھ ملاقات طے تھی‘ ملاقات کے لئے پہنچے تو سائیڈروم پہلے ہی ملاقاتیوں سے بھرا ہواتھا مولانا ابھی اپنے کمرے میں ہی تھے ہماری آمد کی اطلاع ملی تو فی الفوراندر بلوالیا اور ہنستے ہوئے کہنے لگے کہ بہت بڑا دھماکا کردیاہے ہم نے نوعیت پوچھی تو کہنے لگے کہ رضا ربانی کافون آیاتھا وہ کہہ ر ہے تھے کہ اسلام آباد کس وقت پہنچیں کیونکہ آصف زرداری کے کاغذات نامزدگی جمع کرانے ہیں تائید وتجویز کنندگان آپ اور اسفندیارولی خان ہیں ‘مولانا نے یہ کہہ کر فون کردیا کہ جناب کل جو کچھ زرداری صاحب نے فرمایا ہے اس کے بعد تو ابھی ہم نے یہ فیصلہ بھی نہیں کیاکہ ووٹ کس کو دیں گے کاغذات پر دستخط کرنا تو دور کی بات ہے‘ اس کے بعد مولانا نے یہی بات اس وقت کے ضلع ناظم اور موجودہ گورنر حاجی غلام علی کی طرف سے منعقدہ ایک تقریب میں موجودہ میڈیا کے نمائندوں کے ساتھ بات چیت کے دوران دہرائی جس کے بعد اسلام آبادمیں کھلبلی مچ گئی ‘مولانا بہت آرام سے اسلام آباد روانہ ہوئے مگر اس وقت تک پیپلزپارٹی کی پریشانی بڑھ چکی تھی اور پھر جرگوں کاسلسلہ شروع ہوا مولانا کومنایاجانے لگا اورپھر مولانا مان بھی گئے مگر اسلامی قانون سازی اور اقدامات کے حوالہ سے کئی یقین دہانیاں حاصل کرنے کے بعد ان میں جمعہ کی چھٹی کی بحالی ،اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشا ت کو عملی جامہ پہنانے ،لال مسجد کامعاملہ خوش اسلوبی سے حل کرنے سمیت کئی اہم نکات شامل تھے دوسری طرف اے این پی تھی جو اس وقت صوبہ میں حکمران تھی اورمرکز میں اتحادی تھی اس کے صدارتی ووٹوں کی تعداد جے یو آئی کے صدارتی ووٹوں کی تعدادسے دگنی سے بھی زیادہ تھی مگربغیر کسی شرط اور صوبہ کے لئے کوئی منصوبہ منظور کرائے اپنے ووٹ پیپلزپارٹی کے پلڑے میں ڈال دیئے تھے‘ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ مولانا اس وقت واحد سیاست دان ہیں جو خود کوابھی تک سیاست کاطالب علم سمجھتے ہیں چنانچہ ہروقت سیکھنے کی جستجو میں لگے رہتے ہیں اور اس میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے جب بھی صوبہ کے حوالہ سے یا ملک کے حوالہ سے اہم ایشوز سامنے آتے ہیں تو مولانا ایک غیررسمی محفل سجا لیتے ہیں خود سنتے بھی ہیں اورپھرسناتے بھی ہیں‘ جب ن لیگ کے پچھلے دورحکومت میں سی پیک کے مغربی روٹ کو پس پشت ڈالاگیا تو مولانانے پشاور میں ایک مشاورتی نشست بلائی جس میں پشاور کے درجن بھر سینئر صحافیوں کو مدعو کیاگیا تھا ‘مولانانے معاملہ پر مشاورت چاہی اورپھر خوب سیر حاصل گفتگو ہوئی‘ اسی مجلس کی تجاویز کی روشنی میں پھر مولانا نے وفاقی حکومت سے مغربی روٹ کے حوالہ سے معاملات تحریری صورت میں طے کئے اور اب جب اتوار کو مولانا کی طرف سے غیر رسمی نشست کے لئے برادرم جلیل جان کی طرف سے دعوت ملی تو یہ سب کچھ نگاہوں کے سامنے گھوم گیا‘ نشست تو آف دی ریکارڈ تھی مگر پوشیدہ نہ رکھی جاسکی مولانا بہت کچھ سننے اور سنانے کے موڈمیں تھے‘ اسی لئے توتلخ سے تلخ اور طویل سے طویل سوالات کے جوابات بھی پوری خندہ پیشانی سے دیئے اس روز انہوںنے اپنے حلیفوں کو جو پیغام بھجواناتھا وہ بہت ہی خوب صورت اندازمیں پہنچ گیا دبئی میں محفلیں سجانے والے ان کے اتحادیوں کی دوڑ یں لگ گئیں اوران کو احساس ہوگیا کہ کم سے کم پی ڈی ایم کی جماعتوں کو تواعتماد میں لیناچاہئے تھا چنانچہ مولانا کو وزیراعظم ہاﺅ س بلوا کر وضاحت دے دی گئی مولانا بھی جلدمان گئے کیونکہ الیکشن سرپرہیں اور معاملات کو زیادہ دیرالتواءمیں رکھنا مولانا کے نزدیک خسارے کاسوداثابت ہوسکتاہے‘ مولانا کو سب سے بڑا چیلنج اس وقت خیبرپختونخوا میں درپیش ہے وہ پی ٹی آئی سے د س سال بعد صوبہ کااقتدارہرصورت چھیننا چاہتے ہیں اگرچہ اس وقت بھی نگران صوبائی حکومت میں سب سے زیادہ حصہ جے یو آئی کاہے تاہم مولانا کی کوشش ہے کہ الیکشن میں اکثریت حاصل کرکے اتحادی جماعتوں کے ساتھ حکومت قائم کریں اس مقصد کے لئے جے یو آئی انتظار میں ہے کہ کسی طرح پی ٹی آئی کے ساتھ یہاں بھی وہی معاملہ ہوجائے تو پنجاب میں ہوا‘ اس کے بعد مولانا نئی حکمت عملی کے ساتھ میدان میں ا تریں گے‘ ویسے بھی وہ نپے تلے انداز میں سیاسی فیصلے کرنے کے قائل ہیں‘ ایم ایم اے اور اے این پی نے پانچ پانچ سال حکومت کی اس کے بعد ہونے والے دو انتخابات میں دونوںکو پی ٹی آئی کے ہاتھوں شکست سے دوچارہونا پڑا ‘دیکھنااب یہ ہے کہ مولاناپندرہ سال بعد صوبہ کی حکمرانی کس طرح حاصل کرپاتے ہیں؟۔