صوبائی دارالحکومت پشاور کا کوئی ایک بھی رہائشی یا کاروباری علاقہ ایسا نہیں جہاں بنیادی سہولیات کا نظام مثالی شکل و صورت میں موجود ہو اگرچہ عوامی اجتماعی مسائل کے حل کے لئے فیصلہ سازی کا عمل وسیع کر دیا گیا ہے ‘ مقامی حکومتیں (بلدیاتی نظام) اِسی لئے وضع کیا گیا ہے کہ اِس کے ذریعے علاقائی سطح پر عوام کی نمائندگی ہو‘ تو کیا وجہ ہے کہ پھر بھی ’شہری مسائل‘ جوں کے توں برقرار ہیں اور ترقیاتی ترجیحات کا تعین کرنے میں وہی ’دانستہ غلطیاں‘ آج بھی دُہرائی جا رہی ہیں جو ماضی میں کی جاتی تھیں اگر پشاور اور اِس کے موجودہ مسائل پر غور کیا جائے تو یکساں توجہ طلب امر یہ بھی سامنے آتا ہے کہ بنیادی طور پر پشاور کے مسائل کی وجہ اور اِس کے وسائل پر ’2 قسم‘ کے بوجھ ہیں‘ایک اِس کی بڑھتی ہوئی آبادی ہے کہ خیبرپختونخوا کے دور دراز دیگر اضلاع سے بہتر معاشی مستقبل (روزگار و ملازمت) حفاظت‘ تعلیم اور حتیٰ کہ علاج معالجے کے لئے بھی پشاور کا رخ کیا جاتا ہے ‘ یہ بھی پشاور کی تاریخ رہی ہے کہ یہاں جب بھی کوئی ’وارد‘ ہوا تو اُن کی ایک تعداد پشاور ہی کی ہو کر رہ گئی‘ شاید اِسی لئے تاریخ کی کتب میں ”پشاور“ کی وجہ¿ تسمیہ ’پیش آورد‘ بھی ملتی ہے‘ بہرحال پشاور کا انتخاب کرنے والوں کی نظر میں فوری طور پر یہاں کی سہولیات جم جاتی ہیں ‘ اِس کا محرک سرسری و فطری بھی ہے جس کا ایک تعلق پشاور کی آب و ہوا سے ہے اور اگرچہ اب ماضی کی طرح مثالی نہیں رہی لیکن دیگر اضلاع سے پھر بھی نسبتاً بہتر ہے‘جب ہم سہولیات کے تناظر میں پشاور کا جائزہ لیتے ہوئے موازنہ خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع سے کرتے ہیں تو پشاور کی صورتحال نسبتاً زیادہ بہتر دکھائی دیتی ہے ‘ یہی کشش یہاں کے مسائل میں اضافے کا ’کلیدی محرک‘ ہے جس کا ”بوجھ“ پشاور کی زرخیز زرعی (قابل کاشت) اراضی پر رہائشی کالونیاں بننے کی صورت دیکھا جا سکتا ہے۔ پشاور کا نہری نظام گندگی و غلاظت کا مجموعہ بن چکا ہے۔ شاہی کٹھہ اور بازار تجاوزات سے بھر گئے ہیں۔ اکثر علاقوں میں نہری نظام نکاسی¿ آب کا بنیادی ذریعہ ہے جس میں گھریلو و کاروباری ‘ صنعتی کوڑا کرکٹ‘ فضلہ اور کیمیائی مادے بنا روک ٹوک بہائے جا رہے ہیں۔پشاور کا وہ نہری نظام جو کبھی آبنوشی کے لئے استعمال ہوتا تھا چند دہائیوں میں نکاسی آب کا ذریعہ بن گیا ہے اُور یہی ’آلودہ پانی‘ ضلع و تحصیل پشاور کی باقی ماندہ زراعت و باغبانی کے لئے استعمال ہونے کی وجہ سے نت نئی بیماریوں کو جنم دے رہا ہے۔گلبہار کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اُور یہ تقسیم وقت کے ساتھ ’گل بہار‘ کی آبادی بڑھنے کی وجہ سے خودبخود ہوتی چلی گئی گل بہار کی ابتدائی آبادی (پہلے حصے یعنی گل بہار نمبر ون) کے بعد کسی بھی دوسرے حصے (گل بہار نمبر دو‘ رشید ٹاو¿ن اور گل بہار نمبر چار) میں خاطرخواہ شہری منصوبہ بندی کا عمل دخل نظر نہیں آتا بلکہ کھیتی باڑی کے لئے استعمال ہونے والی یہ اراضی ٹکڑوں میں فروخت ہوتی رہی اُور یوں راستے (گلیاں اُور سڑکیں) تخلیق پاتے رہے‘ بہرحال ’گل بہار‘ پشاور شہر کا پہلا توسیعی منصوبہ بصورت رہائشی بستی قرار دی جا سکتی ہے جس کے اکثر حصوں میں شہری منصوبہ بندی کا فقدان نظر آتا ہے ‘ فٹ پاتھ کے ساتھ بنے نالے نالیوں پر بھی قبضہ ہو چکا ہے جس کی وجہ سے اُن کی صفائی پندرہ بیس برس سے نہیں ہوئی‘معمولی سی بارش بھی گل بہار کے نشینی و نسبتاً بالائی حصوں کے لئے طغیانی کا باعث بنتی ہے ‘جس سے تعلیمی اداروں‘ دفاتر اور مساجد کو باقاعدگی سے جانے والوں کو مشکلات رہتی ہیں! میئر پشاور نے حال ہی میں انم صنم چوک سے عشرت سینما چوک اور عشرت سینما چوک سے آفریدی گڑھی تک سڑک کی تعمیر و مرمت کے لئے فراخ دلی سے مالی وسائل فراہم کئے ہیں لیکن یہ مالی وسائل اگر سڑک کے اُن چند حصوں کی مرمت پر خرچ کئے جاتے جو توڑ پھوڑ کا شکار تھے۔ گل بہار کے 3 مسائل انتہائی ضروری ہیں۔ نکاسی¿ آب کا نظام گلیوں سے متصل نہیں۔ گلیاں نیچے اُور سڑک کی سطح ہر ترقیاتی کام کے بعد بلند ہو رہی ہے۔ کئی گلیوں کی فرش بندی چاہئے جو عرصہ بیس سال پہلے بنائی گئی تھیں اور بجلی کی فراہمی کا بوسیدہ (ناکافی) نظام کی اصلاح و توسیع ہونی چاہئے۔