ٹیکنالوجی کا بڑھتا ہوا استعمال صرف کام کاج کو آسان اور معیاری ہی نہیں بنا رہا بلکہ یہ ہماری صلاحیتوں کے اظہار اور کام کاج کے طریقوں کو بھی تبدیل کر رہا ہے اور ٹیکنالوجی کا یہ ’نمایاں پہلو‘ اپنی جگہ غورطلب ہے کہ اِس پر بڑھتے ہوئے انحصار کی وجہ سے انسانی معاشرے اور خود انسان کی مختلف تعریف وجود میں آئی ہے جیسا کہ ہم کون ہیں۔ آج کی حقیقت کیا ہے؟ سوشل میڈیا کا زیادہ اور حد سے زیادہ استعمال کرنے والوں کو اِس بات کا اندازہ ہی نہیں کہ وہ حقیقی زندگی سے اپنا تعلق توڑ چکے ہیں اور وہ سوشل میڈیا پر جتنا بھی وقت گزارتے ہیں وہ اتنا ہی کم وقت اپنی حقیقی زندگی سے منہا کر رہے ہیں جس سے سماجی تعلقات وقت گزرنے کے ساتھ کمزور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ خطرناک بات یہ ہے کہ آن لائن زیادہ وقت گزارنے کے نتیجے میں حقیقی دنیا اور انسان کا انسان سے وجودی تعلق ختم ہو رہا ہے۔ مصنوعی القابات اور فرضی مسکراہٹوں نے انسانوں کی جگہ لے لی ہے!سوشل میڈیا مجازی حقیقت ہے۔ اِس کے ذریعے سے تعلقات و تخلیات اور تخلیقات جن دائروں میں گھومتی ہے اُس کا تعلق بھورے یا سفید بالوں سے نہیں رہا جو زندگی سے متعلق انسانی تجربے سے مزید ہوتی ہے بلکہ سوشل میڈیا ہر طرح کے تعلقات کی صداقت پر بھی سوالات اُٹھا رہا ہے۔ نوجوان نسل کو ’آن لائن‘ سائبر اسپیس کی وسعت اور اِس وسعت میں گم ہوتا دیکھا جا سکتا ہے جہاں وہ حقیقی اور مصنوعی زندگی کے درمیان تعلق کو گہرے جذبات و رفاقت کی شکل میں جس انداز سے دیکھتے ہیں‘ وہ اصلاح طلب ہے کیونکہ اگر غلط فہمیوں کا ازالہ نہ کیا گیا تو سوشل میڈیا کے نتائج تاحیات ہوسکتے ہیں! آج کا نوجوان ’آن لائن‘ بات چیت اور سماجی تعلقات کو حقیقی سمجھ رہا ہے اور اِسے مناسب وقت دینے کی بجائے اپنا سارا وقت اِسی کے لئے وقف کئے ہوئے ہے۔ اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ سماجی رابطہ کاری بڑھنے کی وجہ سے خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے اور اِس کی وجہ سے مجازی دنیا میں زیادہ سے زیادہ نوجوان جو خود کو محفوظ سمجھ رہے ہیں لیکن حقیقت میں غیر محفوظ ہیں۔مشہور زمانہ موبائل فون ’نوکیا 3310‘ سے جدید ترین سمارٹ واچز کے استعمال تک پاکستانی معاشرے دلچسپ سفر جاری ہے اور نوجوانوں کی اکثریت سستی تفریح کی عادی ہے اور ہر ایک گھنٹے میں سوشل میڈیا کے ذریعہ فراہم کردہ ڈوپامین کی بڑھتی ہوئی خوراک کے عادی ہو چکے ہیں۔ درس و تدریس کے طریقے بدل گئے ہیں۔ طلبہ سوالات نہیں کرتے کیونکہ اُنہیں گوگل میسر ہے۔ اُنہیں امتحانات کے لئے تیاری کی بھی فکر نہیں کیونکہ آن لائن درسی وسائل اور ویڈیو لیکچرز اُن کی بہت ساری مشکلات کا حل ثابت ہو رہے ہیں۔ ایک ایسی صورتحال میں جبکہ نوجوان سوشل میڈیا کے عادی ہیں اور سوشل میڈیا کا عادی ہونے میں کوئی مضائقہ بھی نہیں تو ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ تعلیمی نصاب بنانے والے ’آن لائن تدریسی وسائل‘ کو مدنظر رکھیں اور اُسی کے مطابق یا اُسی کی روشنی میں اسباق کا تعین کریں۔ بنیادی طور پر تعلیم کا مقصد تنقیدی سوچ کو بیدار کرنا ہوتا ہے جو سوشل میڈیا وسائل کے استعمال کی وجہ سے نایاب ہو چکی ہے اور اب تنقیدی سوچ سے کسی بھی چیز کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ سوشل میڈیا کی حقیقت ہی یہ ہے کہ اِس کے ذریعے ہر بات حقیقت سمجھی جاتی ہے۔سوشل میڈیا اور آن لائن وسائل کی وجہ سے اِمتحانات اپنا مخصوص ’تھرل (مزا)‘ گنوا چکے ہیں۔ عمومی تاثر ہے کہ جامعات کی ضرورت نہیں رہی بلکہ فاصلاتی تعلیم میں زیادہ سرمایہ کاری کی ضرورت ہے تاکہ بے قاعدہ تعلیم کو باقاعدہ بنایا جا سکا اور اگر تعلیم میں ’اِی گورننس‘ لاگو کر دیا جائے تو اہلیت کو نظر انداز کرنے سے متعلق شکایات کا بھی ازالہ ہو جائے گا۔ سوشل میڈیا نے نیم تعلیم یافتہ ٹک ٹاکرز کو راتوں رات کروڑ پتی بنا دیا ہے اور وہ عملی زندگی میں اپنی کامیابیوں کے لئے تعلیم سے زیادہ سوشل میڈیا کے کردار کو اہم سمجھتے ہیں لیکن ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں آن لائن تعلقات رکھنے والوں کو پچھتاوا ہوا اور حد سے زیادہ سوشل میڈیا استعمال کرنے والے تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ آن لائن تعلقات گمنامی کا اِحساس پیدا کرسکتے ہیں کیونکہ سوشل میڈیا پر بے تھکان خیالات کا اِظہار کرنے والوں میں نفسیاتی تحاریک پیدا ہو سکتی ہیں جن سے وہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے بات چیت کرنے سے کتراتے ہیں اور ایسی صورت میں صحت مند حدود کو برقرار رکھنا ضروری ہوتا ہے۔بعض صورتوں میںسوشل میڈیا کا استعمال دھوکہ دہی کے لئے ہو رہا ہے۔ دوستی کا جھانسہ دے کر لوٹنے والوں کی اچھی خاصی تعداد فعال ہے اور رواں ہفتے وفاقی تحقیقاتی اِدارے (ایف آئی اے) نے دس ایسے گروہوں کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا ہے جو آن لائن قرض دینے کے بہانے لوگوں کو لوٹ رہے ہیں۔ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جو آن لائن تعلقات سے وابستہ ممکنہ خطرات اور چیلنجوں کو اُجاگر کر رہی ہیں تاہم تمام آن لائن سرگرمیاں منفی نتائج کی حامل بھی نہیں ہوتیں بلکہ اِن سے مدد بھی مل سکتی ہے۔ وقت ہے کہ آن لائن تعلقات اور رشتوں کے دائروں کو وسیع کرتے ہوئے نوجوانوں کی ذہن سازی کی جائے اور سوشل میڈیا کے ممکنہ خطرات کے بارے میں نوجوان نسل کو آگاہی دی جائے۔