بااختیار طلبہ

 نصاب تعلیم کو عصری تقاضوں اور علوم سے ہم آہنگ کرنا کسی بھی صورت آسان نہیں ہے بالخصوص ایک ایسے وقت میں جبکہ مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹلی جنس) کے کمالات اور مظاہر کا تیزی سے ظہور ہو رہا ہے۔ پاکستان میں نصاب تعلیم سے متعلق اصلاحات پر ہر دور حکومت میں خصوصی توجہ دی جاتی ہے لیکن اِس کوشش کے خاطرخواہ (عملاً بہتری کی صورت) نتائج حاصل نہیں ہو رہے اور تعلیم واضح طور پر معیاری اور غیرمعیاری درجات میں تقسیم دکھائی دے رہی ہے۔ اِس صورتحال میں ایک رائے یہ بھی ہے کہ نصاب تعلیم پر وسائل اور وقت خرچ کرنے کی بجائے ترقی یافتہ ممالک میں پڑھایا جانے والا نصاب اور امتحانی نظام من و عن رائج کر دیا جائے تاہم یہ کسی بھی صورت آسان نہیں ہوگا۔ وفاقی حکومت نے حال ہی میں کوڈنگ پروگراموں اور آئین کے مطالعہ کو قومی نصاب میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ انتہائی اہم پیشرفت ہے‘ جس پر قومی سطح پر خاطرخواہ بحث و مباحثہ نہیں ہو رہا۔ سٹریٹجک اصلاحات کا نعرہ ہے کہ ’مستقبل کے لئے طلبہ کو بااختیار بنایا جائے‘ اور ظاہر ہے کہ اِس حقیقت و ضرورت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ پاکستان کی اصل ضرورت ہی یہ ہے کہ ہمارے ہاں طلبہ مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کے لئے تیار نہیں۔ کوڈنگ پروگراموں سے متعلق لائحہ عمل کیا ہونا چاہئے۔ اِس کی تفصیلات کیا ہیں اور اِسے کس طرح آسان و قابل عمل بنا کر پیش کیا جائے گا کہ اساتذہ اِس تصور کو عملی جامہ پہنا سکیں اِس حوالے سے امور سٹریٹجک ریفارمز یونٹ‘ شعبہ¿ تعلیم سے متعلق وفاقی وزارت‘ پیشہ ورانہ تربیت کی وزارت‘ قومی نصاب کونسل اور انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) صنعت کے ماہرین دیکھ رہے ہے۔ ابتدائی معلومات کے مطابق نئے کوڈنگ پروگرامز جماعت ششم (چھٹی) اور اس سے اوپر کے درجات کے طلبہ کے لئے ہوں گے جبکہ آئین کی تعلیم کو گریڈ نو سے بارہ تک مطالعہ پاکستان (پاکستان سٹڈیز) میں ضم کر دیا جائے گا۔ یہ اضافہ مستقبل کی نسلوں کو آئی ٹی اور دیگر مسائل کو حل کرنے کی مہارتوں سے لیس کرے گا جس کی فیصلہ سازی کی سطح پر اہمیت کو تسلیم کرنا اپنی جگہ انقلابی تبدیلی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ ڈیجیٹل دور میں روزگار اور معاشی ترقی کے لئے اُسی رفتار سے نوجوانوں کو آگے لانا ہوگا جس تیزی سے دنیا میں یہ ترقی ہو رہی ہے۔ نوجوانوں کو تعلیم سے لیس کر کے مستقبل کے رہنما تخلیق کئے جا سکتے ہیں اور اُنہیں سیاسی و قانونی فریم ورکس کی جامع تفہیم دے کر قومی فیصلہ سازی میں شریک کیا جا سکتا ہے۔درحقیقت اِس بات کا تصور کرنا مشکل ہے کہ پاکستان اکیسویں صدی میں جدید علوم سے لیس ایسی افرادی قوت کے بغیر ترقی کر سکتا ہے جو ڈیجیٹل کام کاج کرنے کی خاطرخواہ مہارت نہ رکھتے ہوں۔ مستقبل میں دفتروں کی بجائے کام کاج گھروں سے ہوگا جس کے لئے تعلیم سے لیکر بینکاری کے شعبوں تک خدمات کے نئے معیارات تخلیق پا رہے ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ تکنیکی ترقی میں حصہ لینے کے قابل وہی ہوگا جو اپنے حقوق‘ ذمہ داریوں اور حکومت کس طرح چلانی چاہئے جیسے پہلوو¿ں کے بارے میں علم رکھتا ہو لیکن افسوس کہ ایسے ہنرمندوں کی کمی ہے جو کام کاج کی عالمی منڈی کی ضرورت کے مطابق علم اور تجربہ رکھتے ہوں۔ مذکورہ دونوں شعبے میں طلبہ کی سمجھ بوجھ کو بڑھانے کے لئے اصلاحات اور فوری بہتری کی ضرورت ہے۔ اطلاعات کے مطابق پاکستان میں انٹرنیٹ (براڈ بینڈ) تک رسائی قریب بائیس فیصد لوگوں کو حاصل ہے جبکہ ملک کی قریب 78 فیصد آبادی انٹرنیٹ اور موبائل یا ٹیلی کام خدمات دونوں تک رسائی سے محروم ہے‘ جس کی وجہ سے ہم انٹرنیٹ اور ٹیلی کام تک رسائی کی فہرست میں کم ترین درجے پر فائز ہیں‘ ان خدمات تک رسائی کو وسعت دیئے بغیر‘ ڈیجیٹل دور میں پھلنا پھولنا ناممکن ہوگا ۔سکولوں میں آئین پڑھانے سے خواندگی بڑھانے میں مدد ملے گی۔ طلبہ کو صرف اُن کے آئینی حقوق ہی نہیں بلکہ آئینی ذمہ داریاں اور جمہوری حکمرانی کی بنیاد رکھنے والے اصولوں کی تفہیم بھی حاصل ہو گی اور انہیں اپنی گردوپیش میں اصلاحی کردار ادا کرنے کا موقع ملے گا جس سے مجموعی طور پر قوم کی تشکیل میں نوجوان فعال طور پر شریک ہو جائیں گے۔ آئین کی تاریخ‘ ترامیم اور تشریحات کا مطالعہ کرکے طلبہ میں یقینا ’تنقیدی سوچ‘ کی صلاحیتوں کو فروغ ملے گا جس سے اُمید یہ بھی ہے کہ وہ ماضی کی غلطیوں کے ازالے کے لئے اپنی بہترین صلاحیتیں بروئے کار لائیں گے۔ لمحہ¿ فکریہ ہے کہ پاکستان کی اکثریت بظاہر آئین سے بے خبر ہے۔ اِسے آئین میں دی گئی اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہیں اور نہ ہی اپنے آئینی حقوق سے یہ باخبر ہیں۔ اگر طلبہ آئین کو سمجھ لیں تو ایسے بہت سارے شکوک و شبہات کا ازالہ بھی ممکن ہے جنہیں پاکستان کے خلاف غیر ملکی سازش قرار دے کر غلط فہمیاں پھیلائی جاتی ہیں۔ آئینی اصولوں کے بارے میں گہرائی سے جاننا جمہوری اقدار کے فروغ اور اِن اقدار کے زوال کا باعث بن سکتا ہے۔ تعلیمی اداروں کے نصاب میں آئین پڑھانا محض ایک مشق نہیں بلکہ جمہوریت کے مستقبل میں سرمایہ کاری ہے۔ اس تناظر میں قومی نصاب میں اضافہ ضروری اور بروقت ہے تاہم تعلیم اور ٹیلی کمیونیکیشن کے بنیادی ڈھانچے کی توسیع کے بغیر تبدیلیاں‘ چاہے وہ جتنی بھی پرکشش اور بظاہر اچھی معلوم ہوں لیکن وہ کم ہی رہیں گی اور اِس سے عام آدمی کی زندگی میں کوئی فرق بھی نہیں پڑے گا۔ آئین کو ایک عام آدمی (ہم عوام) کے حق میں مفید بنانے کی واحد صورت یہی ہے کہ نصاب تعلیم کے ذریعہ درجہ بہ درجہ آئین طلبہ کو سمجھایا جائے اور آئین پر عمل درآمد کے فوائد (ثمرات) سے آگاہ کیا جائے۔