گرمیوں کی چھٹیاں کچھ گزر گئیں اور کچھ ابھی باقی ہیں، بچوں کیلئے گرمی کی چھٹیاں ہر لحاظ سے یادگار ہوتی ہیں، بچوں کا دل کرتا ہے کہ چھٹیوں سے بھر پور لطف اندوز ہوںجبکہ والدین کی طرف سے شرط رکھی جاتی تھی کہ جب تک سکول سے ملنے والا کام ختم نہیں ہوتا، تب تک کوئی سیر سپاٹا نہیں ہو گا۔ایسے میںچھٹیوں کے کام کی ریس شروع ہو جاتی کہ کون سب سے پہلے چھٹیوں کا ہوم ورک مکمل کرتا ہے اور پھر اس کے بعد کی فرصت کا تصور ہی سرشار کر دینے کو کافی تھا۔عام تعلیمی دنوں میںبچوں پر غیر معمولی تعلیمی و دیگر اقسام کے بوجھ ہوتے ہیں اور مخصوص نظم و ضبط کے ساتھ ہونے والی تعلیمی سر گرمی کسی حد تک جسمانی و ذہنی طور پر تھکا دینے والی بھی ہوتی ہے۔ گرمیوں کی چھٹیاں جہاں بچوں کو معمول سے ہٹ کر کچھ کرنے کا موقع دیتی ہیں وہیں کلاس رومز اور سکول کی گھٹن کی فضا سے باہر نکل کر اپنے مشاہدے و تجربے کو بڑھانے کا ایک ذریعہ بھی بن سکتی ہیں۔کسی بھی انسان کی شخصی نمو اور اپنی شخصیت میں توازن کے لیے مذکورہ بالا تمام سر گرمیاں نہایت ضروری ہیں۔ اس لیے ایک وقت آتا ہے جب بچوں کو منظم انداز میں تقسیم وقت سے زیادہ سکون بخش فرصت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور گرمیوں کی چھٹیاں انھیں یہ موقع فراہم کرتی ہیں۔ یہ سب نہ صرف ان کی شخصی تربیت کے لئے ضروری ہے بلکہ اس سے بچوں کی خود اعتمادی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔اسی طرح گرمیوں کی چھٹیاں ایک طرح سے والدین کی آزمائش ہے اگر چہ انہیںمعمول کے مطابق صبح بچوں کوتیار کرنے، لنچ باکس بنا کر دینے، سکول تک لانے اور لے جانے جیسی مصروفیات سے عارضی ہی سہی لیکن نجات مل جاتی ہے لیکن دیکھا جائے توعام دنوں کی نسبت گرمیوں کی چھٹیوں میں ان کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہو جاتاہے۔ چھٹیوں میں بچوں کے تعلیمی معیار کو برقرار رکھنے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے اور ویسے بھی پورے سال میں یہی وہ چند ماہ ہیں جن میں والدین اور بچے ایک دوسرے کو ہمہ وقت میسر رہتے ہیں۔ ان تعطیلات کے دوران بہتر ہے کہ والدین بچوں کی تعلیم اور تربیت کے لیے کچھ اہداف مقرر کریں اور بچوں کے ساتھ ان کی سرگرمیوں میں برابر کے شریک ہوں۔کورس کے علاوہ کتابوں کا مطالعہ، واقفیت عامہ کی ڈاکیومینٹریز، تعلیمی کھیل نہ صرف ان کے ننھے دماغوں میں تجزیاتی سوچ کو پروان چڑھائیں گے بلکہ انہیں ذہنی اور جسمانی طور پر اس طرح فعال رکھیں گے کہ تعطیلات کے بعد سکول کھلنے پر معمول کی تعلیم کی طرف لوٹنے میں انہیں کوئی دقت پیش نہ آئے۔
دوسرا اہم نکتہ بچوں کی کردار سازی ہے۔فرصت کا یہ وقت والدین کے لیے ایک اہم موقع ہے، جس میں نہ صرف بچوں میں معاشرتی و سماجی شعور اُجاگر کیا جا سکتا ہے، انہیں عزت و احترام، ہمدردی اور احساس ذمہ داری جیسے انسانی اوصاف سے نہ صرف آگاہ کیا جا سکتا ہے بلکہ چھوٹی چھوٹی گھریلو ذمہ داریوں میں ان کی شرکت کو یقینی بنا کر ان میں احساس ذمہ داری بھی پیدا کیا جا سکتا ہے۔اسی طرح فرصت کے یہ دن خاندان کے افراد کے درمیان ایک مضبوط اور محبت بھرا تعلق قائم کرنے کا شاندار موقع فراہم کرتے ہیں‘مل جل کر باہمی دل چسپی کی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے نہ صرف ایک دوسرے کے مزاج کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے بلکہ تمام عمر ساتھ رہنی والی خوش گوار یادیں بھی اکٹھی ہوتی ہیں۔ ا اسی طرح یہ وقت بچوں کی اخلاقی تربیت اور خاندان کے باہمی تعلق کو مضبوط کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔اگرچہ بہ ظاہر یہ ایک مشکل کام ہے لیکن تھوڑی سی منصوبہ بندی اور توجہ کے ذریعے والدین نہ صرف اس وقت کے بہترین مصرف کو ممکن بنا سکتے ہیں اور بچوں کو معاشرے کا ایک مفید رکن بنانے میں اپنا کردار بھی ادا کر سکتے ہیں۔ بلکہ بچوں کیلئے چھٹیوں کوزیادہ سے زیادہ مفید بنانے کے ساتھ ساتھ ان کی زندگی کے ان لمحات کویادگار بنانے میں بھی مدد کرسکتے ہیں۔یہاں یہ امر دلچسپی سے خالی نہی ہوگا کہ چھٹیوں کو بھی تعلیمی سرگرمیوں کا ایک حصہ ہی سمجھنا چاہئے کیونکہ جہاں معمول کی تدریسی سرگرمیوں میں بچے امتحانات کی تیاری اور کورس کی کتابوں کے مطالعے سے بہت کچھ سیکھتے ہیں وہاں چھٹیوں کے دوران ان کی تخلیقی صلاحیتوں کے بہت سے پہلو اجاگر ہو سکتے ہیں بشرطیکہ کہ والدین اس موقع سے فائدہ اٹھائیں اور بچوں کی چھٹیوں کو ان کی تعلیمی سرگرمیوں کا اہم حصہ سمجھتے ہوئے اس سے فائدہ اٹھائیں۔انہی صفحات پر پہلے بھی بچوں کی تعلیم کے حوالے سے والدین کے کردار کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے کہ بچوں کا زیادہ وقت تو والدین کے ساتھ گزرتا ہے اور سکو ل میں بچے جو بھی وقت گزارتے ہیں اس کی بنیاد بھی گھر سے ہی استوار کی جاتی ہے۔ اگر بچے اعتماد کے ساتھ سکول جائیں اور گھر میں ان کو تعلیمی دن کے پر سکون اور بھر پور آغاز کا موقع فراہم کیا جاتا ہے تو یقینی طور پر ان کی سکول میں سرگرمیاں زیادہ نتیجہ خیز ہوتی ہیں اور انہیں اگر گھر پر مناسب ماحول نہ ملے تو سکول میں بہت زیادہ محنت کے اثرات بھی دیر پا ثابت نہیں ہو سکتے ۔