لوگوں کی اکثریت اپنے اپنے موبائل فون کی دنیا میں مگن رہتی ہے اور اطلاعات کی موسلادھار بارش سے لطف اندوز ہونے کی عادی ہو چکی ہے‘ اِسی موبائل فون کے ذریعے اکٹھا کی گئی معلومات کو صحافتی سانچے میں ڈھال کر خبر بنایا جاتا لیکن احساس نہیں ہوتا کہ مٹھی میں بند یہ مواصلاتی انقلاب درحقیقت ایک ایسی دھات کی وجہ سے ہے جسے ’سیلیکان (Silicon)‘ کہتے ہیں اور اِس نیم قیمتی دھات نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا ہے‘ سلیکون 2.2 گرام فی واٹ کی قیمت قریب 20 ڈالر فی کلو ہے اور گزشتہ دو دہائیوں کے دوران سلیکون دھات کی قیمت میں 100 فیصد سے زیادہ کمی ہو چکی ہے لیکن اِس کا استعمال بڑھ رہا ہے اور ایک ایسی دھات جو دنیا کو خلا اور زمین کی گہرائیوں میں کھوج کے قابل بنائے ہوئے ہے اور جس کی وجہ سے وقت اور جغرافیے کا تصور یکسر تبدیل ہو کر دنیا گلوبل ویلج کہلانے لگی ہے اُس کے ذخائر ہمارے قرب و جوار (بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کے اضلاع) میں پائے جاتے ہیں۔ موبائل فون استعمال کرنے والے جس ایک بات کی سب سے زیادہ شکایت کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ اُن کا فون گرم ہو کر کام کرنا چھوڑ دیتا ہے یا زیادہ گرم ہونے کی وجہ سے وہ اِسے خود ہی بند (آف) کر دیتے ہیں تاکہ ’خراب‘ نہ ہو۔ موبائل فون گرم ہونے کی بنیادی وجہ گرمی کی شدت نہیں کیونکہ انسانی جسم سے مماثلت رکھنے والے نظام کی بدولت ٹیکنالوجی کو رواں دواں رکھنے کا طریقہ استعمال ہوتا ہے۔ موبائل فون گرم ہونے کی 2 تکنیکی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ موبائل فون جس دھات اور جس حافظے کی بنیاد پر کام کر رہا ہوتا ہے وہ ’سیلیکون‘ دھات سے بنے چار قسم کے ’سیمی کنڈکٹرز‘ ہوتے ہیں اُور اِس دھات سے ایک خاص درجہ¿ حرارت میں بہتر کام لیا جا سکتا ہے جسے درج ذیل سطور میں بیان کیا جائے گا جبکہ دوسری وجہ حافظے (میموری) کے ایک خاص حد سے بڑھ جانا ہے جس کے بارے میں یہ مغالطہ پایا جاتا ہے کہ غیرضروری ویڈیو یا تصاویر کو باقاعدگی سے منہا (ڈیلیٹ) کیا جاتا ہے لیکن درحقیقت وہ ’ڈیلیٹ‘ نہیں ہوتیں جب تک کہ ایک خاص عمل نہ کیا جائے اور اِس حوالے سے تفصیلات آئندہ مضمون میں بیان کی جائیں گی۔ سیمی کنڈکٹرز سلیکون کے علاوہ دو دیگر دھاتوں سے بھی بنائے جاتے ہیں لیکن سلیکون سے بنے سیمی کنڈکٹرز کو زیادہ پائیدار اور بہتر سمجھا جاتا ہے۔ ایک لیپ ٹاپ کمپیوٹر میں تقریبا 3 ارب تک ٹرانسسٹرز ہوتے ہیں جبکہ موبائل فون میں اِس سے بھی زیادہ ہو سکتے ہیں جن کی تعداد موبائل کی قیمت کے لحاظ سے کم یا زیادہ ہوتی ہے۔سیمی کنڈکٹر کیا ہوتے ہیں اور اِن کی انقلابی خصوصیت کیا ہے کہ جس کی وجہ سے اِن کی خریدوفروخت دنیا کی دو بڑی معاشی طاقتوں (چین و امریکہ) کے درمیان تناو¿ کا باعث بنی ہوئی ہے جبکہ ایسے ممالک بھی ہیں جن کی مجموعی برآمدات میں ’چپ سازی‘ کی صنعت سرفہرست ہے؟ قبل ازیں ’سیمی کنڈکٹر‘ کیا ہوتا ہے‘ یہ جاننا ضروری ہے۔ اگر ہم کسی بیٹری کے مثبت و منفی ٹرمینلز سے تار لگا کر اُسے بلب کے ساتھ منسلک کر دیں اور بلب تک کرنٹ کسی لوہے کی چیز سے ہو کر گزرے تو بلب جل اُٹھے گا کیونکہ لوہا ’الیکٹرک کنڈکٹر‘ ہوتاہے یعنی اُس سے برقی رو گزر سکتی ہے لیکن اگر لوہے کی بجائے شیشے کے کسی ٹکڑے سے دونوں تاروں کے سروں کو جوڑا جائے تو وہ عمومی درجہ حرارت پر برقی رو آگے نہیں بڑھائے گا یعنی بلب نہیں جلے گا کیونکہ شیشے سے کرنٹ گزرنے کی صلاحیت انتہائی زیادہ درجہ حرارت کے علاو¿ہ ممکن نہیںہوتی۔ اِسی طرح اگر اِنہی دو تاروں کو کسی ’سلیکان‘ دھات سے پالش شدہ ٹکڑے سے جوڑیں تب بھی بلب نہیں جلے گا لیکن جیسے ہی ’سلیکان‘ کو حرارت پہنچائی جائے گی اور وہ گرم ہوگا تو بلب جل اُٹھے گا۔ تو ’سلیکون‘ دھات میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ یہ درجہ¿ حرارت کے تبدیل ہونے کے ساتھ اپنے کام کرنے کی صلاحیت بھی تبدیل کر لیتی ہے اور یہی وہ خصوصیت ہے کہ جس کی وجہ سے ’سلیکون‘ سے بنے ’سیمی کنڈکٹرز‘ کو کمپیوٹروں‘ موبائل فونز‘ گھڑیوں اور دیگر ہر قسم کے الیکٹرانک آلات میں استعمال کیا جاتا ہے اور سلیکون درحقیقت کمپیوٹر کا دماغ ہوتا ہے۔ چھوٹے سائز کے سیمی کنڈکٹر ’آن آف سوئچ‘ کی طرح کام کرتے ہیں جنہیں ’ٹرانسسٹرز‘ کہا جاتا ہے جو کسی بھی کمپیوٹر چپ میں ’دل‘ جیسا بنیادی عضو ہوتے ہیں اور اِنہی وجہ سے کمپیوٹر مصنوعی ذہانت سے لیکر وقت دکھانے جیسا بظاہر معمولی کام سرانجام دیتے ہیں۔ سمی کنڈکٹرز کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ یہ سائز میں چھوٹے ہوتے ہیں اور اِن کے استعمال کی وجہ سے کمپیوٹروں کا سائز بھی چھوٹا ہونا ممکن ہوا ہے۔ کسی مادے کی تین حالتیں ہوتی ہیں ایک تو وہ کنڈکٹر ہو سکتا ہے کہ اُس سے برقی رو گزر سکے۔ دوسرا وہ انسولیٹر ہو سکتا ہے جس سے برقی رو نہیں گزر پاتی اور تیسرا وہ سیمی کنڈکٹر ہوتا ہے یعنی وہ خاص حالت میں برقی رو کو گزرنے یا اُسے روکنے کے کام آتا ہے یعنی سیمی کنڈکٹر بیک وقت تین قسم کے کام کر سکتا ہے۔ سیلیکون کے ایک ہتھیلی سائز کے ٹکڑے جسے ’ویفر (Wafer) ‘ کہا جاتا ہے پر بہت سے سیمی کنڈکٹر لگائے جا سکتے ہیں اور اِس عمل کا آغاز فوٹوگرافی کے ایک خاص عمل سے ہوتا ہے جو ایک وقت تک اخبارت میں بھی استعمال ہوتا تھا ۔تکنیکی طور پر کوئی بھی کمپیوٹر یا موبائل فون کو کام کرنے کےلئے تین طرح منطقی آلات ‘ یاداشت اور کمپیوٹروں کے دیگر آلات سے مواصلاتی رابطے کی صلاحیت رکھنے والے (کیمونیکشن ایلیمنٹ) کی ضرورت ہوتی ہے اور اِن تینوں مراحل میں سیمی کنڈکٹرز کام آتے ہیں جن کا استعمال ہوائی جہازوں‘ خلائی جہازوں سے لیکر ہاتھ پر بندھی ہوئی ایک الیکٹرانک گھڑی میں ہوتا ہے اور اِسی کی بنیاد پر گھریلو آلات جیسا کہ مائیکرو ویو اُوون اور ٹوسٹرز وغیرہ بھی کام کرتے ہیں‘ اِسی سے انٹرنیٹ کی رابطہ کاری بھی ممکن ہوئی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ دنیا بھر میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد سے متعلق تازہ ترین اعدادوشمار جو ’اپریل 2023ئ‘ میں مرتب کئے گئے تھے کے مطابق ”64.6 فیصد عالمی آبادی جو کہ 5 ارب 18 کروڑ سے زیادہ ہے انٹرنیٹ کا استعمال کر رہی ہے اور اِن میں سے 31 فیصد ایسے انٹرنیٹ صارفین ہیں جو چوبیس گھنٹے ’آن لائن‘ رہتے ہیں! دنیا ’چپ سازی‘ میں سرمایہ کاری کر رہی ہے جبکہ پاکستان سے نہ صرف سلیکون کوڑیوں کے دام برآمد ہو رہا ہے بلکہ اِس کا استعمال بارے خاطرخواہ خواندگی بھی نہیں پائی جاتی اور یہ دونوں پہلو ہی اصلاح طلب ہیں۔