یکم محرم الحرام امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت سے منسوب دن عالم اسلام اور بالخصوص پاکستان میں پوری عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے۔ اِس دن کی تعظیم اور یادآوری کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ کے کارہائے نمایاں اور اقوال کو اُجاگر کیا جائے جن کا مختصراً احاطہ اِس اُمید کے ساتھ قارئین کے پیش خدمت ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی سیرت و کردار سے آگاہی اور اِن پر عمل سے دنیا و آخرت میں کامیابیاں حاصل کی جا سکتی ہیں۔ اسلام کے درخشاں ستاروں (صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین) کی محبت و عقیدت کے ساتھ ضرورت اِس بات کی بھی ہے کہ اُن کے عمل جیسا عمل اور اُن کی ذات رسالت مآب سے محبت جیسی محبت اختیار کی جائے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شخصیت ہر دور کے حکمرانوں کے مشعل راہ ہے۔ آپؓ نے سیاسی‘ معاشی‘ انتظامی اور سماجی سطح پر عوام کی بہبود کے لئے ایسی بہت سی اصلاحات متعارف کروائیں جن کی ضرورت آج بھی محسوس ہو رہی ہے اور آج بھی اسوہ¿ فاروقیؓ پر عمل پیرا ہو کر ہمارے قومی و صوبائی فیصلہ ساز ’مثالی‘ بن سکتے ہیں۔ حضرت عمرؓ قریش کے قبیلے ’بنو عدی‘ سے تعلق رکھتے تھے اور آپ کے والد ’خطاب بن نفیل‘ نے آپؓ کی تربیت میں نمایاں کردار ادا کیا جو مکہ مکرمہ میں ایسے حکومتی عہدے پر فائز تھے جہاں اُنہیں دشمن قبائل اور خاندانوں کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرنا ہوتا تھا۔ خطاب بن نفیل سخت گیر منتظم تھے اور اُنہوں نے اپنے صاحبزادے کی تربیت میں بھی سختی سے کام لیا جس کا نتیجہ تھا کہ حضرت عمرؓ کی تعلیم اور جنگی حکمت عملیوں کے بارے میں مہارت نکھر کر سامنے آئی اور آپؓ مکہ مکرمہ کے اُن چند افراد میں شمار ہونے لگے جو پڑھنا لکھنا جاننے کے علاو¿ہ بہادری اور جنگی حربوں سے متعلق بھی علم رکھتے تھے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد اُنہوں نے پیغمبر اِسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مسلمانوں کے نگہبان کے طور پر نہایت ہی اہم کردار ادا کیا اور اکثر انتظامی اور مذہبی امور کے حوالے سے تجاویز بھی دیا کرتے تھے جنہیں ذات رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من و عن قبول فرماتی۔ یہ اعزاز اپنی جگہ اہم ہے کہ قرآن کریم کی کئی آیات حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مشوروں کی تائید میں نازل ہوئیں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپؓ کو ”فاروق“ کا لقب دیا جس کا مطلب ہے حق و باطل میں تمیز کرنے والا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سماجیات کے ماہر تھے۔ اُنہوں نے شہریوں کے بنیادی حقوق کو اجاگر اور اُن کا تحفظ کیا اور اُن کے دور میں اسلامی ریاست ہر شہری چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم کے حقوق کا تحفظ کرتی تھی۔ معاشرے کے کمزور طبقات خواتین‘ بچوں‘ معذور اور معمر افراد کے لئے سرکاری خزانے (بیت المال) سے وظیفے مقرر کئے۔ آپ کے دور حکومت میں فوج کی نقل و حرکت کی وجہ سے ایک کاشتکار کی فصل کا نقصان ہوا تو اُسے خطیر رقم (دس ہزار درہم) دیئے۔ عمر بن خطابؓ نے ہمیشہ انفرادی آزادی اور عزت نفس کی حمایت کی۔ غلامی کو ختم کیا۔ غیر مسلموں کے حقوق پر خصوصی توجہ دی۔ حضرت عمرؓ نے پہلا ’اسلامی سکہ‘ متعارف کرایا۔ دولت اور پیداوار کی گردش کے لئے ٹیکس اصلاحات کیں۔ آبپاشی کے لئے نہریں تعمیر کیں۔ معاشی سرگرمیوں کے لئے ہر قصبے میں خصوصی بازار قائم کئے جن کا اکثر دورہ کرتے تھے تاکہ اجناس کی قیمتیں اعتدال پر رہیں۔
خلافت راشدہ کے منصب پر فائز ہوئے تو حضرت عمرؓ نے ارشاد فرمایا ”میری نیک کام کرنے مدد کرو۔“ اُن کے دیگر اقوال بھی طرزحکمرانی اور بہتر معاشرے کی تخلیق و تشکیل چاہنے والوں کے رہنما اصول کے طور پر کام آ سکتے ہیں۔ ”آج کا کام کل پر مت رکھو۔ منہ پر تعریف کرنا ذبح کرنے کے مترادف ہے۔ طالب دنیا کو علم پڑھانا رہزن کے ہاتھ تلوار بیچنا ہے۔ ایمان کے بعد نیک بخت بیوی سے زیادہ کوئی نعمت نہیں۔ گناہ کا ترک کرنا توبہ کی تکلیف سے زیادہ آسان ہے۔ ہر چیز کا حسن ہوتا ہے اور نیکی کا حسن یہ ہے کہ فوراً کی جائے۔ ظالموں کو معاف کرنا مظلوموں پر ظلم ہے۔
جو تجھے تیرے عیب سے آگاہ کرے وہ تیرا دوست ہے۔ غریب کے ساتھ ہمدردی سے پیش آو¿ تاکہ اس کی زبان کھلے اور ہمت پڑے۔ دوسروں کی فکر میں اپنی ضروریات کو مت بھولنا۔ عدل مظلوم کی جنت اور ظالم کی جہنم ہے۔ نصیحت کے لئے موت ہی کافی ہے۔ زیادہ ہنسنا موت سے غفلت کی نشانی ہے۔ فتح امید سے نہیں‘ علم اور اللہ تعالیٰ پر اعتماد سے حاصل ہوتی ہے۔ جو شخص اپنے بھید کو پوشیدہ رکھے وہ مختیار ہے۔ جس سے تم متنفر ہو اس سے ڈرتے رہو۔ عقلمند شخص وہ ہے جو اپنے افعال کی تکمیل نیک کرسکتا ہے۔ خشوع و خضوع کا تعلق دل سے ہے‘ ظاہری حرکات سے نہیں۔
تین چیزیں محبت بڑھانے کا ذریعہ ہیں۔ اول سلام کرنا‘ دوم دوسروں کے لئے مجلس میں جگہ خالی کرنا اور سوئم مخاطب کو بہترین نام سے پکارنا۔ عزت دنیا مال سے ہے اور عزت آخرت اعمال سے ہے۔ بڑھاپے سے پہلے جوانی اور موت سے پہلے بڑھاپے کو غنیمت جانو۔ جو شخص راز پوشیدہ رکھتا ہے وہ گویا اپنی سلامتی کو اپنے قبضے میں رکھتا ہے۔ طمع کرنا مفلسی‘ بے غرض ہونا امیری اور بدلہ نہ چاہنا صبر ہے۔ شریف آدمی کی پہچان یہ ہے کہ جب اس کا مقابلہ کمزور سے پڑے تو اپنے آپ کو پیچھے ہٹا لے۔ سب سے زیادہ عقلمند شخص وہ ہے جو اپنی بات کو اچھی طرح ثابت کر سکے۔ تم جس سے نفرت کرتے ہو اس سے ہوشیار رہو۔ جو برائی سے بے خبر ہے وہ برائی میں مبتلا ہوگا۔ دنیا کو کم حاصل کرو تو زندگی آزادانہ بسر ہوگی۔ نہ تمہاری محبت حد سے زیادہ ہو نہ تمہاری نفرت اور اللہ تعالی اس پر رحم نہیں کرتا جو دوسروں پر رحم نہ کرے۔