سمندروں اور کرہ ہوائی سے متعلق امریکی ادارے نیشنل اوشینک اینڈ ایٹماسفریک ایڈمنسٹڑیشن نے حال ہی میں بتایا ہے کہ اس سال جون میں گرمی کے تمام سابقہ ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں اور سمندروں کا درجہ حرارت ماضی کے ریکارڈ سے تقریباً ایک چوتھائی ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ تھا۔ این او اے اے طویل عرصے سے عالمی درجہ حرارت کا ریکارڈ رکھ رہا ہے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ اس سال جون میں اوسط درجہ حرارت 61.79 ڈگری فارن ہائیٹ رہا جو 20 ویں صدی کے اوسط درجہ حرارت سے 1.89 ڈگری فارن ہائیٹ زیادہ تھا۔ یہ ادارہ 1850 سے درجہ حرارت کا ریکارڈ رکھ رہا ہے اور اس کے پاس 174 برسوں کا ڈیٹا موجود ہے۔زمین ان اندازوں سے کہیں زیادہ تیزی سے تپ رہی ہے جس سے موسمیات کے ماہرین خبردار کر رہے تھے اور سائنس دان عالمی سطح کے اجلاس بلا کر کاربن گیسوں کے اخراج پر کنٹرول کے لیے اہداف طے کر رہے تھے۔آب و ہوا اور موسم سے متعلق دیگر عالمی ادارے مثلا ناسا، برکلے ارتھ، یورپ کوپرنیکس نے بھی جون کے مہینے کو اب تک کی معلوم تاریخ کا گرم ترین مہینہ قرار دیا ہے۔این او اے اے کی موسمیات سے متعلق ماہرین کا کہنا ہے کہ پچھلے سال جون کے مقابلے میں اس سال جون کے درجہ حرارت میں ہونے والے اضافے کو ایک بڑا اضافہ کہا جا سکتا ہے کیونکہ درجہ حرارت میں اضافہ عموما ًایک ڈگری کے دسویں حصے کے برابر ہی ہوتا ہے جب کہ یہ اضافہ ایک چوتھائی ڈگری تھا۔نیویارک میں قائم کارنیل یونیورسٹی میں آب و ہوا کے شعبے کے ماہرین کہتے ہیں کہ اس سال ہم جو ریکارڈ درجہ حرارت کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر جنگلاتی آگ، آلودگی اور سیلابوں کے واقعات دیکھ رہے ہیں ، اس سے ہمیں تھوڑا بہت یہ اندازہ ہو رہا ہے کہ آب و ہوا کی تبدیلی کے نتیجے میں ہمیں کتنے خراب حالات کا سامنا ہے ۔اس سال گرمیاں شروع ہونے کے بعد سے اب تک نہ صرف درجہ حرارت کے نئے ریکارڈ قائم ہو چکے ہیں بلکہ جنگلوں میں بھڑک اٹھنے والی آگ کے ایسے واقعات بھی سامنے آ رہے ہیں جن کی اس سے پہلے مثال نہیں ملتی۔کینیڈا کے جنگلات میں اپریل کے وسط سے شروع ہونے والی آگ پر ابھی تک قابو نہیں پایا جا سکا اور اس کے دھوئیں کی آلودگی کے اثرات امریکہ سمیت دیگر علاقوں کو مسلسل اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں اور صحت کے حکام کو بار بار یہ انتباہ جاری کرنا پڑ رہا ہے کہ لوگ خود کو آلودگی سے محفوظ رکھنے کے لئے گھروں سے باہر نکلنے سے اجتناب کریں۔ کینیڈا کی آگ اب تک ڈھائی کروڑ ایکڑ رقبے پر پھیلے ہوئے جنگلات کو خاکستر کر چکی ہے۔گرمی کی شدت سے صرف زمین کی سطح کا ہی درجہ حرارت نہیں بڑھ رہا بلکہ سمندر بھی گرم ہو رہے ہیں۔ ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ سمندر کے گرم ہونے کے اثرات زیادہ گہرے ہوتے ہیں کیونکہ زمین کے تقریبا ً70 فی صد حصے کو سمندروں نے ڈھانپ رکھا ہے۔اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اپریل، مئی اور جون میں سمندروں کا پانی معمول سے زیادہ گرم رہا۔ بحر اوقیانوس تو مارچ ہی میں گرم ہونا شروع ہو گیا تھا۔اسی طرح کریبئن اور برطانیہ کے سمندر بھی درجہ حرارت کے ریکارڈ قائم کر رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق زیادہ امکان یہ ہے کہ موجودہ سال نہ صرف گرم ترین ہو گا بلکہ خشک ترین بھی ہو گا۔سائنس دانوں نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ جولائی کا مہینہ جون سے بھی زیادہ گرم ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ عمومی طور پر جولائی میں جون سے زیادہ گرمی پڑتی ہے۔ جولائی کا اب تک کا اوسط بلند ترین درجہ حرارت کا ریکارڈ 62 ڈگری فارن ہائیٹ ہے جو 2019 اور 2021 میں قائم ہوا تھا۔اس سال جولائی کے پہلے 12 دنوں میں سے گیارہ دن پچھلے سال کے مقابلے میں زیادہ گرم رہے اور یہ رجحان برقرار رہنے کا امکان ہے۔این او اے اے کے مطابق فلوریڈا کے سمندری علاقوں میں حالیہ دنوں میں پانی کا درجہ حرارت 98 ڈگری فارن ہائیٹ تھا جب کہ جولائی کے ابتدائی دنوں میں امریکہ کے گرم ترین علاقے ڈیتھ ویلی کا درجہ حرارت 130 درجے فارن ہائیٹ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ایک جانب درجہ حرارت نئے ریکارڈ قائم کر رہا ہے تو دوسری طرف قدرتی موسمیاتی سائیکل ال نینو کے تحت دنیا کے کئی خطوں میں خشک سالی سے قحط کی صورت حال پیدا ہو رہی ہے۔