پشاور کہانی : محرم سکیورٹی : خطرات و خدشات

اگرچہ ’پشاور پولیس‘ سیکورٹی چیلنجز سے نمٹنے کے لئے مستعد و چوکنا اور پہلے سے زیادہ پرعزم دکھائی دیتی ہے لیکن غیرمعمولی حالات‘ غیرمعمولی اقدامات و انتظامات کے متقاضی ہیں۔ اِس سلسلے میں ’امامیہ کونسل‘ نے تجویز دی ہے کہ دو اور گیارہ محرم الحرام (جمعة المبارک) کے ایام میں نماز جمعة المبارک کے اجتماعات کی سیکورٹی کے لئے صرف پولیس کے افرادی وسائل پر انحصار نہ کیا جائے بلکہ عبادت گاہوں کے لئے متبادل سیکورٹی انتظامات بھی ہونے چاہئےں جبکہ کونسل کی جانب سے پشاور پولیس کے فیصلہ سازوں کو متوجہ کیا گیا ہے کہ وہ ’حفاظتی حکمت عملی (محرم کنٹیجینسی پلان)‘ پر نظرثانی کریں کیونکہ سیکورٹی خطرات و خدشات حقیقی ہیں تاہم حفاظتی انتظامات خوف و دہشت پھیلانے کا باعث نہیں ہونے چاہیئں۔ قابل ذکر ہے کہ پشاور پولیس اجتماعات اور جلوسوں کو حفاظت فراہم کرنے کے لئے ’تین سطحی حفاظتی انتظامات‘ کر رکھے ہیں جس کے لئے ساڑھے تیرہ ہزار پولیس اہلکاروں‘ دو سو کلوز سرکٹ ٹیلی ویژن کیمروں‘ خفیہ اطلاعات کے مربوط نظام اور کرائے کے گھروں و ہوٹلوں‘ سرائے خانوں میں مقیم افراد پر بھی نظر رکھی گئی ہے جبکہ افغان مہاجرین کے پشاور میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے تاہم پشاور شہراور اِس کے مضافات میں افغان مہاجرین مستقل مقیم ہیں یعنی وہ پہلے ہی شہر کی حدود میں داخل ہیں جبکہ ایسے افغان مہاجرین بھی ہیں جنہوں نے غلط طریقےسے پاکستان کی شہریت حاصل کر رکھی ہے اور اُنہیں صرف بول چال و رہن سہن کی عادات سے پہچانا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی شناختی دستاویزات کسی بھی غلط طریقے سے حاصل کرناجرم ہے ۔ افغان مہاجرین چاہے قانونی ہوں یا غیرقانونی اُن کی باعزت اور رضاکارانہ وطن واپسی کے لئے دی جانے والی رعایت و سہولت کا خاطرخواہ ہمدردی سے جواب نہیں دیا گیا۔ افغان مہاجرین یہ بات سمجھنے کے باوجود نہیں سمجھ رہے کہ اُن کی آڑ میں منظم جرائم پیشہ عناصر اور پاکستان دشمن کاروائیاں کر رہے ہیں اور اِس مسئلے کے صرف دو ہی حل ہیں۔ ایک تو یہ کہ افغان مہاجرین کو پاک افغان سرحد سے متصل (شہروں سے دور) خیمہ بستیاں قائم کر کے اِن کی نقل و حرکت محدود کر دی جائے لیکن ظاہر ہے کہ اِس کے لئے پاکستان کے پاس نہ تو درکار مالی و افرادی وسائل ہیں اور نہ ہی وقت۔ دوسرا حل اِن مہاجرین کی رضاکارانہ یا غیررضاکارانہ وطن واپسی کا ہے جو قابل عمل حل ہے اور اِس میں افغان مہاجرین کی بھی بہبود شامل ہے کیونکہ کم آبادی اور قومی ترجیحات کے درست تعین کی وجہ سے افغانستان کے معاشی حالات میں ہر دن بہتری آ رہی ہے‘ جس کا افغان مہاجرین اور افغان امور کے تجزیہ کار اکثر پاکستان کی معاشی صورتحال کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں تو اگر واقعی ایسا ہی ہے تو افغان مہاجرین کو فوراً سے پہلے اپنے ملک واپس چلے جانا چاہئے اور اِس سے بڑھ کر کوئی دوسری خوش قسمتی اور کیا ہوگی کہ اگر کسی شخص کو اپنے ملک کی تعمیر و ترقی میں ہاتھ بٹانے کا موقع مل جائے؟
پشاور کو لاحق امن و امان کے خطرات اور اِن خطرات سے نمٹنے کے لئے سیکورٹی انتظامات کی وجہ سے شہر کی کاروباری سرگرمیاں متاثر ہیں‘ جو پہلے ہی مختلف وجوہات کی بنا پر بحران سے گزر رہی تھیں لیکن ظاہر ہے کہ عوام کی جان و مال کا تحفظ حکومت کی پہلی (at-most) ذمہ داری ہوتی اِس لئے سوچ بچار سے لیکر عملی اقدامات تک ہر پہلو سے غور و خوض اور اِس سلسلے میں ہر فریق (سٹیک ہولڈر) سے مشاورت کی گئی ہے اور گیارہ اضلاع (پشاور‘ کوہاٹ‘ ہنگو‘ ڈیرہ اسماعیل خان‘ کرم‘ اورکزئی‘ ٹانک‘ مردان‘ نوشہرہ‘ ہری پور اور ایبٹ آباد) کو حساس قرار دیا گیا ہے۔ ضلع پشاور کی بات کریں تو محرم الحرام کا آغاز ہونے سے قبل ’دفعہ 144‘ نافذ کر کے افغان مہاجرین کے پشاور میں داخلے‘ اسلحے کی نمائش اور موٹرسائیکل پر ایک سے زیادہ (ڈبل سواری) پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ موٹرسائیکل کم آمدنی رکھنے والوں کی سواری ہے اور پشاور شہر کے گنجان آباد (پرہجوم) قدیمی حصوں میں آمدورفت کے لئے موٹرسائیکل سواری کا واحد ذریعہ بھی ہے تو ایسی صورت میں اُن علاقوں سے رعایت ہونی چاہئے جہاں محرم الحرام کی مناسبت سے اجتماعات یا جلوس نہیں ہوتے۔ پشاور میں لگائی گئی ’دفعہ 144‘ کے تحت موٹرگاڑی اور موٹرسائیکل کے کرائے پر دینے یا حاصل کرنے‘ بغیر نمبرپلیٹ موٹرگاڑی یا موٹرسائیکل اور دیگر گاڑیوں کا استعمال ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ اِسی طرح اُن علاقوں میں چھت پر کھڑے ہونے پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے جہاں محرم الحرام کی مناسبت سے مذہبی اجتماعات یا جلوس گزرتے ہیں۔ پشاور شہر و مضافات اور چھاو¿نی کی حدود میں آتش بازی کے سامان کی خرید و فروخت بھی اِس پابندی کا حصہ ہے۔ مجموعی طور پر 25 پابندیاں 15 روز کے لئے نافذ کی گئی ہیں لیکن اِن میں کئی ایسی پابندیاں بھی شامل ہیں جو مستقل ہونی چاہیئں جیسا کہ آتش گیر مادے کی خریدوفروخت‘ جو بچوں اور بڑوں کے لئے یکساں خطرہ اور مالی وسائل کا ضیاع بھی ہے۔ توجہ طلب ہے کہ محرم الحرام کے موقع پر جبکہ صرف قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی حرکت میں نہیں آتے بلکہ ضلعی انتظامیہ اور عوام کے منتخب (بلدیاتی) نمائندے بھی حرکت میں آ جاتے ہیں تو اِس نادر موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے پشاور شہر کے بازاروں کا سروے کر لیا جائے کہ کن کن بازاروں میں دکانداروں نے اپنی اپنی حدود سے تجاوز کر رکھا ہے اور تجاوزات کے لئے استعمال ہونے والی اشیا دکانوں کے باہر ہی ڈھانپ کر رکھی جاتی ہیں یا ایک ایسی صورتحال میں جبکہ بازاروں میں آمدورفت کم ہو اور کاروباری سرگرمیاں بھی بند کروا دی گئی ہوں تو دکانوں کے پختہ تعمیر شدہ یا غیرپختہ (مستقل و عارضی) اضافی حصے باآسانی شناخت اور ہٹائے جا سکتے ہیں اور اگر حکام کی جانب سے اپیل کی جائے تو محب الوطن تاجر از خود ’انسداد تجاوزات‘ کے سلسلے میں تعاون کریں گے کیونکہ دہشت گردی کے خاتمے کی ذمہ داری صرف اور صرف حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نہیں ہے بلکہ یہ پورے پشاور کو لاحق خطرہ اور ایک اجتماعی مسئلہ ہے جسے حل کرنے کے لئے ’اجتماعی (مربوط) محنت و کوشش کی پہلے سے زیادہ آج ضرورت ہے۔