مہنگائی کی سیاست سے مہنگائی پہ سیاست تک 

 جمہوری طرز حیات کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ سماج کے سب سے نچلے درجہ پر رہنے والے عوام کو ان کی زندگی کی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کے ایسے وسائل فراہم کئے جائیں جو کم از کم ان کیلئے روٹی ، کپڑا اور مکان کی حصولیابی کو یقینی بنا ئیں۔ اس تنا ظر میں اگر ملک کے موجودہ حالات پر نظر ڈالی جائے تو یہ تلخ اور افسوس ناک حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ مروجہ پالیسیوں اور منصوبوں میں یکطرفہ ترقی کے رجحان نے سب سے زیادہ اسی طبقہ کو متاثر کیا ہے۔ اس وقت حالات یہ ہیں کہ غریب اور کسی حد تک متوسط طبقہ کیلئے روزمرہ کی بنیادی ضروریات کی تکمیل ایسا سخت مرحلہ بنتی جارہی ہے جس نے ان طبقات کی زندگیوں میں محرومیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ قائم کردیا ہے۔ اس سلسلے کو منقطع کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش اب تک ارباب اقتدار کی جانب سے نہیںہوئی ہے اور جس طرز کی سیاست کو فی زمانہ مقبولیت حاصل ہوگئی ہے اس میں آئندہ بھی اس کا امکان کم ہی ہے کہ عوام کو مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل سے نجات دلانے کیلئے کوئی ٹھوس اور نتیجہ خیز اقدام اقتدار کی جانب سے کیا جائے۔مفادات کے محور پر گردش کرنے والی اس سیاست نے غریب عوام کے شب و روز کو ایسے مسائل میں جکڑ دیا ہے کہ مایوسی اور محرومی اس طبقہ کا مقدر بن چکی ہے۔ان مسائل میں سب سے نمایاں مسئلہ ملک گیر سطح پر مہنگائی میں ہونے والا وہ ہوشربا اضافہ ہے جس نے عوام کو حواس باختہ کر دیا ہے۔ اس وقت اشیائے خور دو نوش کی آسمان چھوتی قیمتوں نے عوام کو اس قدر پریشان کر رکھا ہے کہ انہیں یہ سمجھ میں ہی نہیں آرہا ہے کہ وہ اپنے اور اپنے بچوں کیلئے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کیسے کریں ؟ بڑھتی بے روزگاری اور کمائی کے محدود ہوتے مواقع نے اس مسئلے کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ ایک طرف تو یہ صورتحال ہے کہ پھلوںاورسبزیوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور دوسری جانب متعلقہ حکام کی بے حسی بھی عروج پر ہے ۔ اس صورتحال نے معاشرہ میں انتشار کی ایسی کیفیت پیدا کر دی ہے جو وسیع پیمانے پر معاشرتی سالمیت کو متاثر کر سکتی ہے۔ اگر پالیسی سازوں سے مہنگائی سے پیدا ہونے والے مسائل پر گفتگو کی جائے تو وہ ایسی تاویلات پیش کرنے لگتے ہیں کہ جیسے مہنگائی پر ہونے والا شور و غوغا صرف ایک سازش ہے اپنے موقف کو صحیح ثابت کرنے کی غرض سے ایسی تاویلات پیش کرتا ہے جو صریح طور پر معاشرہ کے ان طبقات کی تذلیل و تضحیک کے مترادف ہے جو اس مہنگائی کی چکی کے پاٹ میں مسلسل کئی برسوں سے پس رہے ہیں۔اگر اس طبقہ کی ایسی لایعنی تاویلات کو بفرض محال درست مان لیا جائے تو پھر بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جمہور کے ووٹ حاصل کرنے کیلئے سیاسی پارٹیاں ان سے جو وعدے کرتی ہیں ان میں سے بیشتر کا تعلق عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنانے سے ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ معیار زندگی کو بہتر بنانے کے سلسلے کی یہ پہلی کڑی ہے کہ عوام کو اپنے لئے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرنا اس قدر مشکل نہ ہو جائے جیسا کہ ان دنوں ہے۔مفاد پرستی کی رو میں اپنی حقیقت کو فراموش کرنے والا مخصوص مافیا معاشرہ میں کئی سطح پر مسائل پیدا ہونے کا سبب بن رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرہ میں بہ یک وقت ایسے متضاد رجحانات پیدا ہو گئے ہیں کہ جن سے سماجی ہم آہنگی کی فضا مسلسل آلودہ ہو رہی ہے۔ ملک گیر سطح پر روز افزوں بڑھتی ہوئی مہنگائی بلاشبہ ان ناقص پالیسیوں کا شاخسانہ ہے جس میں عوام کو یکسر نظر انداز کر کے صرف مٹھی بھر مافیا کے مفاد کو ترجیح دی گئی۔ ان دنوں مہنگائی کے موضوع پر جو مباحث ہو رہے ہیں انہیں حکومت اور اپوزیشن کے اس دائرے سے اوپر اٹھ کر دیکھنے اور سننے کی ضرورت ہے جہاں ترجیح صرف اور صرف عوام کو حاصل ہے۔ حکومتوں کا آنا جانا جمہوریت کا ناگزیر عمل ہے اور ایسی صورت میں کسی بھی سیاسی پارٹی کے متعلق ایسی گرویدگی مناسب نہیں جو ایک ہی معاشرہ میں رہنے والوںکے درمیان خلیج پیدا کر دے۔ یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ سماج میں پیدا ہونے والی اس خلیج کا سبب وہ تضادات یا اختلافات نہیں ہیں جو نسلی اور قومی فضیلت کے تصور پر اپنی جڑیں پھیلاتے ہیں بلکہ اس تضاد اور اختلاف کا سبب صرف اور صرف اقتدار کی وہ اندھی حمایت جو اقتدار کی خوشی اور مرضی پر منحصر ہوتی ہے۔ملک کی خوشحالی اور ترقی میں خون پسینہ ایک کر دینے والا غریب اور متوسط طبقہ آج جن معاشی مسائل میں مبتلا ہے وہ صریح طور پر اقتدار کی انتہائی ناقص معاشی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔روزمرہ کی ضروری اشیا ءکی قیمتوں میں ہونے والا بے تحاشا اضافہ بھی دراصل انہی غیر متوازن پالیسیوں کی دین ہے جن پالیسیوں میں سماج کے تنوع اور وسعت کو مد نظر نہیں رکھا گیا۔ حکومت اور انتظامیہ اگر سنجیدگی کامظاہرہ کریں تو یہ امید کی جا سکتی ہے کہ ایسے عوامی مسائل جن کا تعلق براہ راست عوام کے معیار زندگی سے ہوتا ہے،ان مسائل پر اقتدار سنجیدگی کی نظر ڈالے گا مہنگائی کو سیاست کی نظرکرنا یا مہنگائی پر سیاست کرنا دونوںہی ناقابل قبول عوامل ہونے چاہئیں مہنگائی کے خاتمہ کے لئے ن لیگ ،پیپلزپارٹی ،تحریک انصاف کی قید سے بھی آزاد ہونا ضرور ی ہے مجبور اور بے بس طبقہ کو مزید آزمائش سے دوچار کرنا بدترین ناانصافی ہوگی اگر میڈیا کی بات کی جائے تو اس وقت سیاسی مصالحہ بیچنے سے اسے فرصت ہی نہیں اس لئے مہنگائی اس کاموضوع ہی نہیں ویسے بھی میڈیا پرنظر آنے والے لوگوں کے مسائل اس عظیم اکثریت کی مشکلات سے بہت مختلف ہیں جنہوںنے اس وقت نہ صرف میڈیا بلکہ سیاسی قیادت کابوجھ بھی اٹھارکھاہے ۔