ادارہ¿ شماریات (پی بی ایس) کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق ”فروری تا جون (دوہزارتیئس) کے دوران 2 لاکھ 15ہزار 752ٹن چینی برآمد کی گئی یعنی چینی ملک سے باہر بھیجی گئی“ جس کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں چینی کی قلت پیدا ہوئی اور قیمتیں بڑھ گئیں۔ شوگر ملز مالکان چینی کی برآمد کرنے کی اجازت حاصل کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں لیکن متعقلہ حکومتی ادارہ برآمد کی اجازت دینے یا نہ دینے سے متعلق فیصلہ عوام کے مفاد میں کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب گزشتہ برس (دوہزار بائیس) میں چینی برآمد کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تو اِس سال (دوہزارتیئس) چینی برآمد کرنے کی اجازت کیوں دی گئی؟ چینی کی صنعت مارچ دوہزاربائیس سے فاضل چینی کو عالمی منڈی میں فروخت (برآمد) کرنے کا اجازت نامہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی تھی اور شوگر ملوں کا مطالبہ تھا کہ مارکیٹ میں فی کلو چینی کی قیمت اَسی سے پچاسی روپے ہے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں تھا اور شوگر ملوں کی جانب سے غلط بیانی سے کام لیا گیا جس کی وجہ سے حکومت نے رواں برس فروری میں چینی برآمد کرنے کی اجازت دی تھی۔ فروری میں بیالیس ہزار چار سو چونتیس ٹن چینی برآمد کی گئی‘ جس کی اگلے مہینے یہ مقدار تین گنا بڑھا کر ایک لاکھ اُنتیس ہزار سات سو چھیالیس ٹن کر دی گئی۔ اپریل میں چینی کی برآمدات چالیس ہزار سات سو سولہ ٹن رہی‘ جس کے بعد اس رجحان میں کمی دیکھی گئی اور مئی میں مجموعی طور پر ایک ہزار 893 اور جون میں 963 ٹن چینی برآمد کی گئی۔ بڑی مقدار میں چینی کی برآمدات کے باعث مقامی مارکیٹ میں چینی کی خوردہ قیمت ایک سو پچاس روپے فی کلو تک پہنچ چکی ہے جبکہ آنے والے مہینوں میں اس کی قیمت میں مزید اضافے کی توقع ہے۔چینی کے صارفین کو دگنی (ڈبل) قیمت پر چینی خریدنی پڑ رہی ہے! وزارت تجارت کے مطابق پاکستان میں چینی کی کھپت پچاس لاکھ ٹن سے زیادہ ہے‘ جس کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ اگر چینی کی قیمت میں ایک روپے فی
کلوگرام بھی اضافہ کیا جائے تو اِس سے صارفین کی جیبوں سے پانچ ارب روپے شوگر ملز مالکان کی جیب میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ چینی کی درآمدات مالی سال 2023ءکے دوران چھ ہزار دو سو پانچ ٹن ریکارڈ کی گئی۔ توجہ طلب ہے کہ پاکستان گزشتہ چند برس سے غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے لیکن خوش قسمتی سے چینی کے شعبے میں اضافی پیداوار حاصل ہوئی ہے جس کا فائدہ حکومت یا عوام کو نہیں ہو رہا اور چینی کے سمگلر‘ ذخیرہ اندوزوں پر مشتمل منافع خور مافیا کسی بھی موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتا جس کی وجہ سے اجناس کی قیمتوں میں اضافے سے متعلق صورتحال مزید خراب ہو گئی ہے۔ عوام الناس کا مطالبہ ہے کہ حکومت مداخلت کرے اور مسئلے کا کوئی مستقل (پائیدار) حل تلاش کیا جائے۔ اِس سلسلے میں ’کین کمشنر پنجاب‘ نے متعلقہ ڈپٹی کمشنرز کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ چینی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں روکنے کے لئے اور افغانستان کو اس کی اسمگلنگ کی روک تھام کے لئے اقدامات کریں۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ بلوچستان میں ہر ہفتے تقریباً سات سو ٹن چینی مختلف راستوں کے ذریعے افغانستان پہنچائی جا رہی ہے۔ چمن‘ قلعہ سیف اللہ‘ قلعہ عبداللہ‘ پشین اور ڑوب جیسے علاقوں کو اس قسم کی غیرقانونی تجارت کے لئے موزوں (ہاٹ سپاٹ) قرار دیا جاتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ چینی سے لدے ٹرک مناسب معائنے کے بغیر چیک پوائنٹس سے
گزر رہے ہیں۔ یہ غیر قانونی تجارت قیمتوں کو کنٹرول کرنے اور ملک کے اندر منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانے کی کوششوں کو کمزور کر رہی ہے۔ گزشتہ سیزن میں وفاقی حکومت نے ملز مالکان کے اصرار پر ڈھائی لاکھ میٹرک ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دی تھی تاہم مقامی کھپت کے لئے چینی کے وافر ذخائر کو برقرار رکھنا اور منافع خوری‘ ذخیرہ اندوزی اور اسمگلنگ کی روک تھام انتہائی ضروری ہے جس کی وجہ سے مصنوعی قلت اور قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ پانچ ماہ قبل بھی ایسی ہی صورتحال پیدا ہوئی تھی جس کے نتیجے میں چینی کی فی کلوگرام قیمت میں ڈھائی سو روپے تک کا اضافہ ہوا جو انتہائی نمایاں اضافہ تھا اور جس کے بعد حکومت کو مداخلت کر کے مارکیٹ میں قیمتوں کے استحکام کے لئے چینی درآمد کرنا پڑی تھی۔ بدقسمتی سے کوئٹہ‘ پشاور‘ لاہور اور کراچی جیسے شہروں میں چینی کی قیمتیں ڈیرھ سو روپے فی کلو تک پہنچ چکی ہیں اگرچہ اِس مسئلے سے نمٹنے کے لئے موجودہ اقدامات کو سراہا جاتا ہے لیکن یہ ضروری ہے کہ وہ صرف عارضی حل نہ ہوں۔ چینی کی قلت اور اسمگلنگ کی بنیادی وجوہات سے نمٹنے کے لئے طویل مدتی حکمت عملی پر عمل درآمد کیا جائے۔ اسمگلروں کی سرگرمیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے مضبوط سرحدی کنٹرول‘ تجارتی راستوں کی نگرانی میں اضافہ اور چیک پوسٹوں پر سخت معائنہ ضروری ہے۔ مزید برآں شوگر انڈسٹری میں شفافیت اور منصفانہ طرز عمل کی حوصلہ افزائی‘ ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری کی حوصلہ شکنی کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ اِس صورتحال میں حکام کو شوگر ملز مالکان اور قانون نافذ کرنے والے اِداروں سمیت متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہئے تاکہ صارفین کو سستے داموں چینی یقینی طور پر اور عملاً میسر آ سکے۔ عوام پر مہنگائی کا بوجھ کم کرنے اور بنیادی اشیائے ضروریہ تک رسائی کے حقوق کا تحفظ بھی اپنی جگہ ضروری ہے جس کے لئے اہمیت کی حامل فوری کاروائی اور مستقل (نتیجہ خیز) کوششیں (عملی اقدامات) بھی انتہائی ضروری ہیں۔