عیدالاضحی کے دن سویڈن کے شہر سٹاک ہوم میں ایک بدبخت عدالت سے اجازت لے کر جامع مسجد کے سامنے قرآن پاک جلانے کی ناپاک جسارت کی تھی۔جس کے خلاف مسلم دنیا ہی نہیں یورپی ممالک میں بھی احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔ قرآن پاک کو جلانے کا بدلہ لینے کے لئے وہاں کے ایک مقامی مسلمان نوجوان احمد الوش نے عدالت میں درخواست دی کہ جس طرح اظہار رائے کی آزادی کے تحت قرآن پاک کو جلانے کی اجازت دی گئی اس طرح اسے بھی تورات اور انجیل کو نذر آتش کرنے کی اجازت دی جائے۔ عدالت نے احمد کو اجازت دیدی۔عدالتی فیصلے پر عیسائی اور یہودی آبادی میں تشویش اور غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ احمد الوش نے عدالتی فیصلے کے مطابق تورات اور انجیل کو جلانے کے لئے مقام اور وقت کا تعین کردیا۔ مقررہ وقت پر ہزاروں کی تعداد میں یہودی اور عیسائی وہاں جمع ہوگئے۔ احمد الوش ایک بیگ اٹھائے وہاں پہنچے انہوں نے بیگ سے تورات اور انجیل نکالا اس کے ایک ہاتھ میں تورات اور انجیل اور دوسرے ہاتھ میں لائٹر تھا۔پورا مجمع دم بخود اسے دیکھ رہا تھا۔اچانک احمد الوش نے اپنے ہاتھ سے لائٹر دور پھینک دیا۔اور اپنے بیگ سے قرآن پاک بھی نکالا اسے چوما اور سینے سے لگا دیا۔ احمد نے اعلان کیا کہ انہوں نے عدالت سے تورات اور انجیل جلانے کی اجازت اس لئے لی تھی کہ غیر مسلموں کو بتاسکے کہ یہودیوں کے لئے تورات اور عیسائیوں کے لئے انجیل جس قدر مقدس اور قابل احترام ہے مسلمانوں کے لئے قرآن مجید اس سے ہزار گنا زیادہ قابل احترام ہے۔ اوراس کی توہین پر پورا عالم اسلام غم زدہ اور رنجیدہ ہے۔احمد الوش کے اس اعلان پر وہاں پر موجود ہزاروں افراد نے انہیں دادوتحسین پیش کیا اور پوری دنیا میں اس عمل کا نہ صرف سراہا گیا بلکہ اسے ایک قابل تقلید مثال قرار دیا گیا۔بلاشبہ یہی وہ طرزعمل ہے جس کے ذریعے ہم دنیا کو باور کراسکتے ہیں کہ اسلام امن و سلامتی اور احترام انسانیت کا درس دیتا ہے ۔سویڈن، فرانس اور دیگر یورپی ملکوں مین آئے روز اظہار رائے کی آزادی کے نام پر شعائر اسلام کی توہین کے واقعات پیش آتے ہیں۔اسلام سے ناواقف دنیا کو یہ پیغام دیناوقت کی ضرورت ہے کہ ہم تمام مذاہب، ان کے پیشواﺅں، ان کی مقدس کتابوں ، ان کی عبادت گاہوں اور ان کے مذہبی اقدار کا احترام کرتے ہیں اور دنیا سے بھی یہ توقع رکھتے ہیں کہ ہماری اقدار، قرآن کریم اور ہمارے آخری نبی ختم المرسلین، خاتم النبین حضرت محمد مصطفی، احمد مجتبیٰ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کا احترام کریں۔ سویڈن کے مسلمان نوجوان احمد الوش نے اپنے عمل سے سچے مسلمان ہونے کا ثبوت دیا ہے اور ان کے اس عمل سے اغیار کو اسلام کا اصل چہرہ دیکھنے، سمجھنے اور سوچنے کا موقع ملا ہے۔حقائق بتارہے ہیں کہ اسلام تیزی سے پھیلنے والا مذہب بن گیا ہے اور مغربی ممالک اسلام کو اپنے لئے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں میں اسلامی شعائر کی توہین کی جاتی ہے۔ دنیا کے مختلف ملکوں میں اسلامو فوبیا کے پھیلاﺅ کے خلاف اقوام نے بھی قرار داد منظور کرلی ہے۔مختلف ممالک کے سربراہوں نے بھی مذہبی دل آزاری پر مبنی واقعات کی مذمت کی ہے۔ لیکن بعض یورپی ممالک میں آزادی اظہار رائے کے نام پر اپنے شہریوں کو دوسروں کے مذہبی جذبات سے کھیلنے اور ان کے شعائر کا مذاق اڑانے کی اجازت دے رکھی ہے۔ جس کے خلاف عالمی ادارے کو سخت موقف اپنانا چاہئے۔عالمی اداروں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اظہار رائے کے نام پر ایسے اقدامات کا راستہ روکے جو کسی ایک ملک کے لئے نہیں بلکہ عالمی امن کے لئے خطرہ بن سکتے ہیں اور یہ اظہار رائے ہرگز نہیں بلکہ ایک طرح سے شرانگیزی ہے جس کا راستہ روکنا ضروری ہے اور پھر خاص طور پر مسلمانوں کے عقائد اور شعائر کی توہین کو ہی اظہار رائے کیوں قرار دیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے اب مغربی ممالک کو اپنے ہاں رائج قوانین پر نظرثانی کرنا ہوگی اور عالمی امن کے ضمن میں یہ ایک اہم مرحلہ ہے کہ ایسے اقدامات کا راستہ سختی سے روکا جائے جس سے اقوام کے درمیان تلخی جنم لے سکتی ہے۔