اشتعال انگیزی : دراز سلسلے

دنیا جس عدم برداشت کی طرف بڑھ رہی ہے اُس کا نتیجہ سوائے مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے کے علاوہ کچھ اور برآمد نہیں ہوگا۔ یورپی ممالک میں ’آزادی¿ اظہار‘ کے نام پر اسلام کے مقدسات کی بار بار توہین جاری ہے اور اگرچہ پوری دنیا میں مسلم و غیرمسلم اِس فعل کی مذمت کر رہے ہیں لیکن توہین کا ہولناک سلسلہ ختم نہیں ہو رہا جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مغربی ممالک کے فیصلہ ساز اپنی سرزمین پر ہونے والی ان اشتعال انگیزیوں کے خلاف کوئی ٹھوس کاروائی نہیں کر رہے اور اِن کی زبانی کلامی مذمت سے مسلمانوں کی تسلی نہیں ہو رہی۔ قرآن کریم کی توہین کا تازہ ترین واقعہ پیش آیا ہے جس میں وہی سویڈش باشندہ شامل ہے جو عیسائی ہے اور عراقی نژاد ہے۔ اِس شخص نے عید الاضحی کے موقع پر ’سٹاک ہوم‘ کی ایک مسجد کے باہر قرآن پاک کا نسخہ نذر آتش کیا تھا۔ بیس جولائی کے روز‘ اِس شخص نے عراقی سفارت خانے کے باہر ایک بار پھر دنیا کی مقدس ترین کتاب کی بے حرمتی کی‘ عرب ملک کے پرچم کی توہین بھی کی جس پر اللہ تعالیٰ کا نام لکھا ہوا تھا۔ یہ اقدامات اشتعال انگیزی کی تازہ مثالیں ہیں۔ حالیہ واقعے سے قبل جب یہ خبر سامنے آئی کہ سویڈش حکام نے مذکورہ شخص کو ”ایک مرتبہ پھر“ قرآن پاک کی بے حرمتی کرنے کی اجازت دیدی ہے تو عراق میں مظاہرین نے بغداد سویڈن کے سفارتخانے پر دھاوا بول دیا جو مسلمانوں کی جانب سے غم و غصے پر مبنی شدید ردعمل ہے اور اگر اِس توہین آمیز سلسلے کو نہ روکا گیا تو صرف سویڈن ہی نہیں بلکہ سویڈن کی حمایت کرنے والے دیگر یورپی ممالک اور بالخصوص امریکہ کے سفارتخانوں پر حملے ہوں گے۔ عراقی حکومت نے سویڈن کے سفیر کو ملک بدر کر دیا ہے جبکہ سعودی عرب نے سٹاک ہوم سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان ’شرمناک کاروائیوں‘ کو روکے۔ دریں اثنا جمہوری اسلامی ایران کی جانب سے بھی شدید ردعمل دیکھنے میں آیا ہے جہاں مغربی ممالک کی اظہار رائے کی آزادی کو فریب قرار دیتے ہوئے اِسے مسلمانوں مذہبی جذبات مجروح کرنے کی سوچی سمجھی سازش کہا گیا ہے اور اِس طرح کے واقعات کو انسانی معاشروں کے وقار‘ اقدار و اخلاقیات کے بھی خلاف قرار دیا گیا ہے۔ کسی بھی مذہب کے مقدسات پر حملہ درحقیقت اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ اب مخالفین کے پاس کوئی منطقی جواز اور دلیل باقی نہیں رہی اور اصولاً دنیا کے کسی بھی ملک میں کسی بھی مذہب کے خلاف یا مذہبی منافرت پھیلانے کے لئے اشتعال انگیز کاروائیوں کو جائز نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ اسلام کے مقدسات کی توہین معمول بنتی جا رہی ہے۔ دنیا مسلمانوں کی دل آزاری اور مذہبی جذبات کی توہین کے خلاف بھی خاطرخواہ سنجیدگی اور حساسیت کا مظاہرہ نہیں کر رہی اور پاگل پن و جنون میں مبتلا افراد کی ہولناک حرکتوں کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے جبکہ ضرورت معاملے کی نزاکت کو سمجھنے کی ہے۔ نفرت انگیز کاروائیوں میں مسلسل اضافے سے دنیا امن کا گہوارہ نہیں بنے گی بلکہ اِس سے مذاہب اور ثقافتوں کے درمیان تصادم پیدا ہوگا ۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے حال ہی میں ایک قرارداد منظور کی۔ مذکورہ قرارداد میں چند حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے کہا گیا کہ اظہار رائے کی آزادی کا غلط مطلب نہ لیا جائے اور ممالک مذہبی منافرت روکنے کے لئے خاطرخواہ کردار ادا کریں۔ مزید برآں مغرب اور زیادہ تر عالمی جنوب (گلوبل ساو¿تھ) کے ممالک کا نقطہ نظر اور ترقی یافتہ کہلانے والی دنیا کے نقطہ¿ نظر میں ’وسیع خلیج‘ پائی جاتی ہے۔ اسلام کے مقدسات کی بے حرمتی سے یہ بات بھی عیاں ہے کہ جو ممالک دیگر ممالک و مذاہب کے جذبات کا احترام نہیں کر رہے درحقیقت وہ آگ سے کھیل رہے ہیں۔ اقوام متحدہ ایک نہایت ہی اہم و بنیادی مسئلے کو نظر انداز کر رہی ہے اور وہ یہ ہے کہ مذاہب کے مقدسات کی توہین درحقیقت ’دہشت گردی‘ ہے کیونکہ اس کی وجہ سے دنیا پہلے سے زیادہ غیرمحفوظ ہو گئی ہے اور نفرت و تشدد کی اِس سوچی سمجھی سازش کو روکنا ضروری ہے۔ یہ بات بھی سمجھنی چاہئے کہ آزادی اظہار کا تعلق ضمیر کی آزادی سے نہیں اور نہ ہی آزادی¿ اظہار کا مطلب مثبت سوچ کی صورت لیا جا رہا ہے۔ مغربی ممالک‘ امریکہ اور اقوام متحدہ کو سوچنا چاہئے کہ اگر ہر ملک اپنے ہاں ’آزادی¿ اظہار‘ کی ویسی ہی اجازت دیدے تو اِس سے کتنے بڑے پیمانے پر فسادات ہوں گے اور یورپی ممالک اور امریکہ کے لئے مسلمان ممالک سے فاصلاتی تعلقات رکھنا ممکن بھی نہیں رہے گا۔ یہ حقیقت اپنی جگہ اہم ہے کہ مغرب میں بھی آزادی¿ اظہار رائے کی ’سرخ لکیریں‘ موجود ہیں لیکن اُن کا استعمال مسلمانوں کے لئے نہیں کیا جا رہا جیسا کہ یورپی ممالک میں ہولوکاسٹ کے حوالے سے تنقید پر پابندی عائد ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ جب اسلام اور اسلام کے مقدسات کی بات آتی ہے تو یہی مغربی ممالک سرخ لکیریں نہیں لگاتے اور اسلام کی سرعام توہین کرنے والوں کو نہیں روکا جاتا جس سے مسلمانوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ مغربی ممالک جان بوجھ کر اسلام کے خلاف توہین آمیز (قابل مذمت و افسوس) واقعات میں ملوث ہے۔ دنیا کو اظہار رائے کی آزادی کے ساتھ اِس آزادی کے ساتھ جڑی ذمہ داریوں اور آزادی کی حدود کا بھی تعین کرنا چاہئے کیونکہ احترام باہمی ہی کے ذریعے دنیا کا مستقبل محفوظ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اسلامی مقدسات کی پے در پے بے حرمتی کے واقعات پر قابو پانے کی ذمہ داری مغربی حکومتوں پر عائد ہوتی ہے جنہیں دنیا کو زیادہ روادار اور تعمیری مثبت سوچ کا حامل بنانے میں کلیدی کردار ادا کرنا چاہئے۔ ایک ایسی دنیا جس میں ہر مذہب اور ہر قسم کے عقائد رکھنے والوں کو اپنے اپنے نظریات کے مطابق زندگی بسر کرنے کی آزادی حاصل ہو لیکن یہ آزادی کسی دوسرے کی توہین پر مبنی نہیں ہونی چاہئے۔ توجہ طلب ہے کہ مذہب کے مقدسات درحقیقت وہ علامتیں ہوتی ہیں‘ جن سے کسی مذہب کے تصور سے حقیقت کے روپ کی شناخت ہوتی ہے۔ جہاں تک پرتشدد انتہا پسندی کا تعلق ہے تو اِس سے محفوظ رہنے کے لئے ضروری ہے اشتعال انگیزی کے دراز سلسلے ختم ہونے چاہیئں۔ شعور سے کام لیتے ہوئے کسی بھی ملک کو اِس بات کا حق حاصل نہیں کہ وہ ’آزادی¿ اظہار‘ یا ’روشن خیالی‘ کی آڑ میں تعصب اور منافرت پھیلائے یا پھیلانے کی اجازت دے۔ اگر باہمی حسن سلوک پر مبنی یہی روش اختیار کی گئی تو اِس سے ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری و مضبوطی اور یہ عمل دنیا کے نسبتاً محفوظ مستقبل کی ضمانت بن سکتا ہے۔