نیشنل الیکٹرک پاور اتھارٹی (نیپرا) نے بجلی کے بنیادی نرخ میں قریب پانچ روپے (چار روپے چھیانوے پیسے) فی یونٹ کا اضافہ کرتے ہوئے اسے چوبیس روپے بیاسی پیسے فی یونٹ سے بڑھا کر اُنتیس روپے اٹھتہر پیسے فی یونٹ کردیا۔ جو فی یونٹ بجلی کی قیمت میں ’بیس فیصد‘ اضافہ ہے۔ ذہن نشین رہے کہ بجلی صارفین کے لئے نئے نرخنامے (ٹیرف) کا اعلان ہونا ابھی باقی ہے کیونکہ بجلی کی پیداواری لاگت کے علاوہ اِس کی تقسیم و ترسیل کے اخراجات بھی فی یونٹ قیمت میں شامل کئے جاتے ہیں۔ بجلی کے علاوہ گیس صارفین کے لئے بھی نرخوں میں اضافہ ہو گا کیونکہ حال ہی میں ’آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کی جانب سے ’بنیادی نرخ (بیس ٹیرف)‘ میں اضافہ کیا گیا ہے۔ جیسا کہ معمول رہا ہے کہ بجلی کی اصل قیمت میں بیس فیصد اضافہ شامل کیا جاتا ہے اور کوشش ہوتی ہے کہ ’300 یونٹ تک کے غریب گھریلو صارفین پر کم سے کم بوجھ منتقل ہو‘ لیکن معاشی پریشانی کے دور میں بجلی و گیس کی قیمتوں میں تھوڑا تھوڑا کر کے ہونے والا اضافہ ایک بڑا بوجھ بن چکا ہے اور اب صورتحال یہ ہے کہ صرف کم آمدنی رکھنے والے گھریلو صارفین ہی نہیں بلکہ زیادہ آمدنی رکھنے والے صارفین بھی بجلی و گیس کی آئے روز بڑھتی قیمتوں سے پریشان ہیں۔صنعتی شعبے
بالخصوص ٹیکسٹائل سیکٹر نے پیداواری اخراجات بڑھنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافے سے نہ صرف پاکستان کی صنعتی پیداوار کم ہوگی بلکہ پاکستان میں تیار ہونے والی مصنوعات عالمی منڈی میں قیمتوں کا مقابلہ نہیں کر پائیں گی۔ ماضی میں بجلی و گیس کے صارفین کو دی جانے والی رعایت کم یا زیادہ کی جاتی تھی لیکن اِس مرتبہ چونکہ بجلی و گیس کی قیمتیں ہی بڑھا دی گئی ہیں اِس لئے ہر کوئی متاثر ہے۔ اس سے قبل حکومت گردشی قرضوں کی شکل میں خسارے کو برداشت کرتی تھی جو بڑھ کر تین کھرب روپے تک پہنچ چکے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی جانب سے عائد شرائط میں گردشی قرض کی سطح کم کرنا ہے۔پاکستان کے لئے بجلی کے مسئلے کا تعلق پیداواری صلاحیت کا کم استعمال ہے یعنی ملک میں بجلی زیادہ پیدا ہو رہی ہے لیکن اِس کا استعمال کم ہو رہا ہے اور حکومت نے نجی بجلی گھروں سے اِس قسم کے معاہدے کر رکھے ہیں کہ اگر اُن کی بجلی صارفین استعمال نہ بھی کریں تب بھی حکومت ادائیگی کرے گی تو اِس وجہ سے گردشی قرض کنٹرول نہیں ہو رہا لیکن دوسری طرف بجلی کی پیداواری صلاحیت کا زیادہ استعمال کیا جائے تو درآمد شدہ ایندھن کی کھپت میں اضافہ ہوسکتا ہے جس سے غیر ملکی زرمبادلہ کی ضروریات میں اضافہ ہو گا اور یہ بوجھ برداشت کرنا بھی پاکستان کے بس میں نہیں ہے۔ اِس صورت حال میں بجلی کی نجی پیداواری صنعتیں آئی پی پیز (انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز) کی مالی تنظیم نو کے کچھ آپشنز موجود ہیں جن کا جائزہ لیا جانا چاہئے۔ اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ پاکستان بجلی ڈالروں میں خریدتا ہے اور جیسے جیسے ڈالر کی قیمت بڑھتی ہے بجلی کی قیمت بھی بڑھتی چلی جاتی ہے جبکہ صارفین توقع کر رہے ہیں کہ حکومت اُنہیں سستی بجلی فراہم کرے گی۔ پاکستان میں بجلی کی پیداوار کا بڑا حصہ درآمدی ایندھن سے تیار ہوتا ہے جبکہ تھر میں کوئلے کے ذخائر موجود ہیں جن سے استفادہ کرنے کے لئے جو ترقیاتی فنڈز درکار ہیں وہ بھی غیر ملکی کرنسی میں چاہیئں۔ توجہ طلب ہے کہ زیادہ تر پاور پلانٹس اُس وقت تعمیر کئے گئے تھے جب پاکستانی روپے کے مقابلے
امریکی ڈالر تقریباً ایک سو روپے کا تھا اور غیر ملکی کرنسی پر سود کی شرح پانچ سے چھ فیصد تھی جبکہ مقامی شرح سود دس فیصد سے کم تھی۔ آج ڈالر تین سو روپے اور شرح سود بیس فیصد سے زیادہ ہو چکی ہے! ماضی کے مقابلے آج درآمد شدہ ایندھن بھی سستے داموں مل رہے ہیں جیسا کہ کوئلہ 80 ڈالر فی ٹن اور ایل این جی 8 امریکی ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو‘ خام (برینٹ کروڈ) تیل ایک سو بیس ڈالر فی بیرل یا اس سے کم میں مل رہا ہے لیکن بجلی کی قیمت کم نہیں ہو رہی۔ خام تیل اور مائع گیس کی نقل و حمل پر لاگت میں اضافہ ایک ایسا محرک ہے جس کی وجہ سے قیمتوں میں کمی نہیں ہو رہی بلکہ یہ تین سے چار گنا زیادہ ہو گئیں ہیں۔ دوسری طرف حکومت نجی بجلی گھروں سے معاہدوں کی وجہ پابند ہے کہ اُن کی پیداواری صلاحیت کے مطابق ادائیگی کرے اور اِس پیداواری صلاحیت میں سالانہ پانچ سے دس فیصد اضافہ کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے لئے بڑی آفت کرنسی کی قدر میں کمی اور شرح سود میں اضافہ ہے جس کے باعث بجلی کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے۔ پرانے سولر پاور پلانٹس تیس روپے فی کلو واٹ پر بجلی فروخت کر رہے ہیں جبکہ کم خرچ سے حاصل ہونے والی شمسی توانائی کا نرخ (سولر ٹیرف) بھی درآمدی ایندھن کی وجہ سے متاثر ہے!۔