خیبرپختونخوا میں تعلیم اور بالخصوص اعلیٰ تعلیم کے معیار کے حوالے سے ایک رپورٹ میںسوالات اٹھائے گئے ہیں کہ فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ کی اکثریت مقابلے کے امتحان میں کامیاب نہیں ہوتی۔ یہ ناکامی اگر کسی تناسب سے ہو تب بھی قابل قبول ہے لیکن جہاں اکثریت ’فیل (ناکام)‘ ہو رہی ہو وہاں تشویش کا اظہار کرنے پر تشویش کا اختتام نہیں ہونا چاہئے۔ رواں ہفتے خیبر پختونخوا پبلک سروس کمیشن (پی ایس سی) نے ’ موجودہ تعلیمی نظام‘ پر تنقید کرتے ہوئے فیصلہ سازوں کو متوجہ کیا ہے کہ ”پوسٹ گریجویٹ“ ڈگری رکھنے والے امیدواروں کی اکثریت مختلف ملازمتوں کے لئے سکریننگ ٹیسٹ کے بنیادی سوالات کا جواب بھی بمشکل دے پاتی ہے۔ ’پی ایس سی‘ کی حالیہ (تازہ ترین) رپورٹ میں خیبرپختونخوا میں تعلیمی اداروں کی جانب سے تیار کئے جانے والے پوسٹ گریجویٹ کے درس و تدریسی نظام پر سوالات اُٹھائے گئے ہیں کیونکہ زیادہ تر امیدواروں کی مضامین کے حوالے سے سمجھ بوجھ نہایت ہی سطحی (کمزور) پائی جا رہی ہے۔ امتحانی بورڈز میں اچھے نمبر حاصل کرنے والوں سے جب رٹے رٹائے جملوں کی بجائے کسی موضوع کے ضمنی پہلوو¿ں کے بارے میں پوچھا جائے تو وہ بغلیں جھانکنے لگتے ہیں۔ توجہ طلب ہے کہ سرکاری محکموں میں ملازمتوں کے لئے الگ سے امتحان لیا جاتا ہے اور یہ امتحان ’بیسک پے اسکیل (بنیادی تنخواہ کی درجہ بندی) جسے عرف عام میں ’بی پی ایس‘ کہا جاتا ہے کے سترہویں درجے (گریڈ) یا اس سے زیادہ گریڈ کی تقرری کے لئے لیا جاتا ہے جسے ’سکریننگ ٹیسٹ‘ کہا جاتا ہے۔ صوبائی پبلک سروس کمیشن کی جانب سے سرکاری ملازمتوں کے خواہشمند افراد کی ’متعلقہ موضوعات‘ کے بارے میں سطحی تفہیم ناقابل فہم ہے کہ طلبہ تعلیمی اسناد (ڈگریوں) کا بوجھ تو اُٹھائے پھرتے ہیں لیکن اُن کی فہم و فراست اور دانشمندی خاطرخواہ وسیع نہیں ہوتی اور یہ انحطاط سال بہ سال زیادہ ہو رہا ہے! مذکورہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تعلیم کو نصاب تک محدود کرنے اور اِسے نصاب تک محدود سمجھنے کی وجہ سے مقابلے کے امتحان میں امیدوار ’تجزیاتی جوابات‘ دینے میں ناکام رہتے ہیں۔ یونیورسٹیوں کی جانب سے تیار کردہ امیدواروں کی قابلیت کی مثال دیتے ہوئے رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ریاضی اور اعداد و شمار میں پوسٹ گریجویٹ اور ایم فل کی ڈگری رکھنے والے زیادہ تر امیدوار انٹرویو کے دوران اپنے وائٹ بورڈ کے مظاہرے میں ابتدائی سطح کے سادہ سوالات کا جواب دینے سے بھی قاصر پائے جاتے ہیں اور ضرورت اِس بات کی ہے کہ تعلیمی نظام پر نظرثانی کرتے ہوئے متعلقہ فیصلہ ساز نہ صرف اصلاحات متعارف کروائیں بلکہ درس و تدریس کے عمل کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنے پر بھی توجہ دی جائے تاکہ تعلیم کا بوجھ بصورت اسناد (ڈگریاں) اُٹھانے والے ملک و قوم کے مسائل کو حل کرنے میں اپنی بہترین صلاحیتوں کا
ادراک و استعمال کر سکیں۔ یہ بات اپنی جگہ لائق تشویش ہے کہ مقابلے کے امتحان میں شامل امیدواروں کی ایک تعداد ایسی بھی پائی گئی کہ جنہوں نے اِس بات کا اعتراف کیا کہ وہ کیلکولیٹر کی مدد لئے بغیر ریاضی کے سادہ (بنیادی) سوالات حل کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ مضامین کی سمجھ بوجھ کے لحاظ سے سب سے زیادہ کمزوری ’زبان و ادب‘ اور ادب کے شعبوں میں پائی گئی ہے۔ اردو اور انگریزی کی لغت (گرائمر)‘ نحو‘ تلفظ اور معروف شاعری کی وضاحت کرتے ہوئے طلبہ خود کو بے بس پاتے ہیں یا اُن کی تشریحات انتہائی سطحی ہوتی ہیں! یہ بات بھی علم میں آئی ہے کہ طلبہ میں اخبار پڑھنے کا رجحان دن بہ دن کم ہو رہا ہے جس کی وجہ سے اُن کی ’جنرل نالج‘ کمزور ہونے کے ساتھ ساتھ اُن کے پاس الفاظ کا ذخیرہ بھی خاطرخواہ نہیں۔ رپورٹ کے مطابق مقابلے کے امتحان میں بطور اُمیدوار شریک ہونے والوں کی ایک مختصر تعداد
قومی اخبارت کا مطالعہ تو کرتی ہے تاکہ عالمی حالات سے باخبر رہ سکیں لیکن وہ مقامی اخبارات کا مطالعہ ضروری نہیں سمجھتے جس سے اُنہیں علاقائی مسائل کے بارے میں علم ہو۔ طلبہ کو یہ بات باور کرانے کی ضرورت ہے کہ معلومات کے اِس دور میںعلم کا مقصد تحقیق اور تحقیق کا مقصد علم ہو چکا ہے۔ تعلیمی نظام محدود ہے جو اپنے آپ کا تنقیدی جائزہ نہیں لے رہا۔ طلبہ کی شخصی نشوونما کرنے پر توجہ نہیں اور طلبہ میں قائدانہ صلاحیتوں کو ابھارنے کو بھی ضروری (لازم) نہیں سمجھا جا رہا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ طلبہ علم تو رکھتے ہیں لیکن اُنہیں علم کے کامل ہونے پر یقین نہیں ہوتا اور جب اُن سے بات چیت کی جائے تو اکثریت کسی نظریئے کا دفاع یا اُس کی مخالفت پر مبنی رائے تو رکھتے ہیں لیکن قابل اعتماد طریقے سے اور باوجود کوشش بھی اپنا مدعا بیان نہیں کر پاتے۔
پبلک سروس کمیشن کی جانب سے چند تجاویز دی گئی ہیں جس میں سب سے اہم یہ ہے کہ جلد از جلد جدید تقاضوں کے مطابق تعلیمی نظام میں اصلاحات متعارف کروائی جائیں بصورت ریاست کی ذمہ داری نبھانے (سرکاری ملازمتوں) کے لئے موزوں اور اہل افراد کی تلاش ممکن نہیں رہے گی۔ دوسری تجویز تعلیمی عمل کے دوران نصابی کتب کے اصل مواد کی بجائے گائیڈ بکس پر انحصار سے متعلق ہے‘ جس کی وجہ سے طلبہ میں تحقیق اور تنقید کا فقدان ہے اور یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ آسان راستے کا انتخاب کرتا ہے۔ مذکورہ رپورٹ میں یہ سوال بھی اُٹھایا گیا ہے کہ کیا تدریسی اداروں کے اساتذہ (فیکلٹی) طلبہ کو علمی ماحول فراہم کرنے میں خاطرخواہ کامیاب (کارگر) ثابت ہو رہے ہیں؟
ملازمت کے لئے مقابلے کے امتحان کا مقصد اُمیدواروں کی اہلیت و صلاحیت جانچنا ہوتا ہے تاکہ اُنہیں اُن کی ذہنی و علمی سطح کے مطابق سرکاری ملازمت دی جا سکے لیکن اگر طلبہ کی ذہانت نصاب تعلیم کی چند کتب سے چپک کر رہ گئی ہے تو تعلیم کے اِس محدود تصور پر نظرثانی کی ضرورت ہے اور یہ مرحلہ¿ فکر متقاضی ہے کہ صرف کسی ایک امتحان ہی کا نہیں بلکہ دیگر امتحانات اور بالخصوص نظام تعلیم کا بھی ’تنقیدی جائزہ‘ لیا جائے اور تعلیم کو اُس کے مقصد سے قریب کرنے کی کوشش کی جائے۔