پاکستان خودمختار ویلتھ فنڈ شروع کرنے پر غور کر رہا ہے جس کی مالیت 23 کھرب روپے ہوگی۔ اِس مالیاتی حکمت عملی کا بنیادی مقصد زرمبادلہ کے ذخائر پر دباو¿ کم کرنا اور ملک کی مالی حیثیت کو مستحکم کرنا ہے تاکہ مستقبل قریب میں دیوالیہ (ڈیفالٹ) کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ قومی خزانے کو توانا کرنے کے لئے ’ابوظہبی انویسٹمنٹ اتھارٹی کی ’تکنیکی معاونت اور سہولیات‘ سے استفادہ کیا جائے گا۔ یہ بات بھی زیرغور ہے کہ خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری کر دی جائے اور اثاثوں کی فروخت سے نہ صرف حکومت کو فوری آمدنی حاصل ہو جائے گی بلکہ قومی خزانے پر بوجھ بھی کم ہوگا۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان انٹرنیشنل ائرلائن (پی آئی اے)‘ پاکستان سٹیل ملز اور پاکستان ریلویز جیسے بڑے ادارے خسارے میں ہیں جنہیں رواں دواں رکھنے کے لئے حکومت کو سبسڈی دینا پڑتی ہے۔ اُمید یہ بھی ہے کہ غیرملکی سرمایہ کار نجکاری کے اِس موقع میں دلچسپی لیں گے جس سے اداروں کو عالمی معیار کی پیشہ ورانہ انتظامیہ (مینجمنٹ) اور جدید ٹیکنالوجی کی صورت ترقی کے مواقع میسر آئیں گے۔ اطلاعات کے مطابق مذکورہ فنڈ کے قیام اور سرکاری اداروں کی نجکاری کے حوالے سے وزارت ِخزانہ کی جانب سے مسودہ قانون کو حتمی شکل دی گئی ہے جسے آنے والے دنوں میں قانون ساز ایوان (نیشنل اسمبلی) میں پیش کیا جائے گا تاہم سرکاری اداروں کی فروخت کی بجائے اگر اُنہیں سیاسی مداخلت کے بغیر چلانے کا تجربہ کیا جائے تو اِس سے خاطرخواہ بہتر نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ نجی کمپنیوں یا انفرادی حیثیت میں سرمایہ کاروں کے پاس جادو کی چھڑی نہیں ہوتی کہ جس کی وجہ سے اُن کے کاروباری تجربات کامیاب ثابت ہوتے ہیں بلکہ بنا مداخلت اداروں کو چلایا جاتا ہے اور اُن پر ملازمین کا بوجھ بھی کم سے کم رکھا جاتا ہے جبکہ سرکاری ادارے اِس کے برعکس چلائے جاتے ہیں اور اِن کے مالی و انتظامی امور میں خاطرخواہ شفافیت بھی نہیں پائی جاتی! یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے زیادہ تر سرکاری ادارے کم یا زیادہ لیکن خسارے میں چل رہے ہیں اور سرکاری
اداروں کا سالانہ خسارہ 125 کھرب روپے ہے جو ملک کی کل قومی پیداوار کا 15 فیصد ہے یعنی پاکستان ہر سال جس قدر مالی وسائل کماتا ہے اُور کا ’پندرہ فیصد‘ سرکاری اداروں کے خسارے کی نذر ہو جاتا ہے اُور یہ تعلیم و صحت پر خرچ کئے جانے والے قومی وسائل سے زیادہ ہے۔ ایک ایسے ملک میں جس کی معیشت قرضوں پر منحصر ہو اور جس کے سرکاری ادارے خسارے سے چل رہے ہوں وہاں اگر ’خودمختار فنڈ‘ بنایا جائے گا تو اِس فنڈ سے حاصل ہونے والی رقم سے خاطر خواہ فائداٹھانا ضروری ہے تاکہ یہ فنڈ بھی ضائع نہ ہو اور جس مقصد کیلئے اس کا قیام عمل میں لایاگیا ہے وہ پوراہو۔ پاکستان میں نجکاری کا قانون موجود ہے۔ اِسی طرح بین الحکومتی تجارتی لین دین آرڈیننس 2022ءکی منظوری سے وفاق کو یہ اختیار مل گیا ہے کہ وہ کسی بھی ملک سے ریاستی اثاثوں کی فروخت کے حوالے سے بات چیت کرے۔ مذکورہ آرڈیننس کو تخلیق کرتے ہوئے اِس بات کا بھی بطور خاص خیال رکھا گیا ہے کہ سرکاری اثاثے فروخت کرنے کے خلاف عدالتوں میں سماعت نہ ہو سکے۔ حکومتی دستاویزات میں اِس بات پر زور دیا گیا ہے کہ نجکاری سے سرکاری کمپنیوں کی کارکردگی بہتر (مو¿ثر) ہوگی اُور حکومت کو زیادہ ٹیکس بھی وصول ہوگا۔ مذکورہ فنڈ کے تحت (پہلے مرحلے میں) 7 ریاستی اثاثوں کی نشاندہی کی گئی ہے جنہیں ’پاکستان سوورن ویلتھ فنڈ‘ میں منتقل کیا جائے گا۔ اثاثوں کی فروخت کو نجکاری کمیشن آرڈیننس‘ پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی آرڈیننس اور اسٹیٹ اوپلائنڈ انٹرپرائزز ایکٹ 2023ءسے مستثنیٰ قرار دینے کے لئے نیا
قانون منظور کیا جا رہا ہے۔ جن کمپنیوں کی نشاندہی کی گئی ہے ان میں او جی ڈی سی ایل‘ پی پی ایل‘ نیشنل بینک آف پاکستان (این بی پی)‘ پاکستان ڈیویلپمنٹ فنڈ‘ گورنمنٹ ہولڈنگز پرائیویٹ لمیٹڈ اور نیلم جہلم ہائیڈرو پاور کمپنی لمیٹڈ شامل ہیں۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی حالیہ رپورٹ میں اشارتاً کہا گیا تھا کہ ”پاکستان کو چاہئے کہ اپنے کچھ سرکاری اثاثے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو فروخت کریں اُور اِس طرح قومی خزانے پر سرکاری اداروں کے بوجھ کو کم کرنے کے بارے میں سوچا جائے۔ اگر نجکاری کا راستہ اختیار کیا گیا تو اِس سے نہ صرف سرکاری خزانے پر پڑنے والے نقصانات (مالی بوجھ) کو کم کیا جا سکے گا بلکہ اِس عمل سے اچھی خاصی رقم بھی حاصل ہو گی جسے تعمیر و ترقی میں سرمایہ کاری کے لئے استعمال کیا جا سکے گا۔“ واضح نہیں ہے کہ حکومت ’آئی ایم ایف‘ کے کہنے پر نجکاری کر رہی ہے یا اِس ضرورت کو ’آئی ایم ایف‘ رپورٹ کے اجرا¿ سے بہت پہلے محسوس کر لیا گیا تھا تاہم نجکاری کے عمل میں شفافیت اور قومی اثاثوں کی قیمتوں کا تعین کرنے میں حد درجہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ سٹاک مارکیٹ کی مندی کے باعث سرکاری کمپنیوں کو فروخت کرنا آسان بھی نہیں ہوگا کیونکہ مقامی شرح سود بہت زیادہ ہے اور عام مارکیٹ ویلیو ایشن بہت کم ہے جبکہ لیکویڈیٹی کی کمی اور مارکیٹ ویلیو ایشن کم ہونے کی وجہ سے محسوس کیا جا رہا ہے کہ بہتر قیمتوں کے لئے سٹاک مارکیٹ کے علاوہ دیگر ذرائع کا استعمال کیا جا سکتا ہے‘ جن میں لین دین اور خریدوفروخت کے حوالے سے شکوک و شبہات جنم لیں گے‘ اِس حوالے سے تنازعات‘ اختلافات اور الزامات سے بچنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ سرکاری اداروں کی نجکاری آئندہ عام انتخابات کے بعد بننے والی حکومت تک مو¿خر کر دیا جائے اور سیاسی جماعتیں اپنے انتخابی منشور میں نجکاری کی حمایت یا اِس کی مخالفت سے متعلق نکات اپنے اپنے انتخابی منشور کا حصہ بنائیں تاکہ اِس اہم قومی فیصلے میں قوم کی رائے بھی شامل ہو سکے۔