محصولات (ٹیکسوں کی شرح) میں اضافے کی وجہ سے ’تنخواہ دار طبقہ‘ سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے‘ جس کی آمدنی کے ذرائع مستقل لیکن اخراجات میں اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ ماہ جون میں ختم ہونے والے مالی سال (2022-23ئ) کے اختتام پر رواں ہفتے سرکاری اعدادوشمار جاری ہوئے ہیں جن سے معلوم ہوا ہے کہ تنخواہ دار طبقے نے مجموعی طور پر 264 ارب روپے زےادہ انکم ٹیکس ادا کیا جو ملک کے برآمد کنندگان اور انتہائی کم ٹیکس والے خوردہ فروشوں (تاجروں و دکانداروں)کی جانب سے ادا کئے گئے مجموعی ٹیکس سے تقریبا ”200 فیصد“ زیادہ ہے۔ ذہن نشین رہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) جس تنخواہ دار طبقے سے پینتیس فیصد کے تناسب سے ٹیکس کٹوتی کرتی ہے اُن سے حاصل شدہ رقم 75 ارب روپے ہے جو گزشتہ مالی سال (2021-22ئ) کے مقابلے میں چالیس فیصد زیادہ ہے۔ ٹیکس ادائیگی کے لحاظ سے ود ہولڈنگ ٹیکس دینے والے ٹھیکیداروں‘ بینک ڈیپازٹرز اور درآمد کنندگان کے بعد تنخواہ دار افراد چوتھے نمبر پر سب سے زیادہ ٹیکس ادا کر رہے ہیں اور یہ ٹیکس اُن کو تنخواہ ملنے سے قبل کاٹ لیا جاتا ہے۔ گزشتہ سال بجٹ میں حکومت نے تنخواہ دار طبقے کے ٹیکسوں میں اضافہ کیا تھا جس کی وجہ سے تنخواہ دار طبقے سے زیادہ ٹیکس وصولی ممکن ہوئی۔ ٹیکس وصولی کا نظام غیرمنصفانہ ہے۔ تنخواہ دار طبقے پر عائد بھاری ٹیکسوں اور تاریخ کی بلند ترین مہنگائی کے باوجود رواں مالی سال کے لئے ’دو لاکھ روپے ماہانہ‘ سے زائد کمانے والوں کی تنخواہ دار افراد پر ٹیکسوں میں اضافہ کیا گیا ہے جبکہ پانچ لاکھ خوردہ فروشوں ایسے ہیں جن کی ٹیکس رجسٹریشن سے متعلق قواعد میں نرمی کرتے ہوئے اُنہیں چھوڑ دیا گیا ہے۔ گزشتہ مالی سال کے دوران ’ایف بی آر‘ نے ود ہولڈنگ ٹیکسز کی مد میں دو کھرب روپے سے زائد رقم جمع کی تھی جو اِس سے گزشتہ مالی سال میں ایف بی آر کی جانب سے حاصل ہونے والے کل انکم ٹیکس کے اکسٹھ فیصد کے برابر رہی۔ تفصیلات سے پتہ چلتا ہے کہ ود ہولڈنگ ٹیکس‘ خاص طور پر گوشوارے جمع نہ کرنے والوں سے دگنی شرح پر محصولات جمع کرنے کا ایک آسان ذریعہ بن گیا ہے۔
ایف بی آر کی جانب سے مرتب کردہ تفصیلات کے مطابق انکم ٹیکس کی سب سے زیادہ رقم کنٹریکٹرز‘ سیونگ اکاو¿نٹ ہولڈرز‘ امپورٹرز‘ تنخواہ دار افراد‘ نان فائلرز‘ ٹیلی فون اور موبائل فون صارفین‘ بجلی کے بلوں اور ڈیویڈنڈ سے وصول ہوئی ہے۔ آمدنی کے دیگر اہم ذرائع جیسا کہ جائیدادوں کی خرید و فروخت‘ برآمدات‘ غیر ملکی انکم فیس‘ بروکریج کمیشن اور گاڑیوں کی رجسٹریشن سے بھی ٹیکس وصول ہوا ہے لیکن اِس کا تناسب کم ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق برآمد کنندگان اور ریٹیلرز مجموعی طور پر تنخواہ دار طبقے کے مقابلے میں 175ارب روپے کم ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ گزشتہ مالی سال میں برآمد کنندگان اور خوردہ فروشوں کی جانب سے ادا کیا جانے والا مجموعی انکم ٹیکس ساڑھے 89 ارب روپے تھا جو تنخواہ دار افراد کی جانب سے ادا کئے جانے والے انکم ٹیکس سے 196 فیصد کم ہے۔ گزشتہ مالی سال (دوہزاربائیس تئیس) میں 27.7 ارب ڈالر کمانے والے برآمد کنندگان نے صرف 74 ارب روپے ٹیکس ادا کئے۔ ٹیکسوں میں اِن کا حصہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 17.4 فیصد رہا لیکن یہ روپے کے لحاظ سے ان کی آمدنی میں اضافے سے کم تھا۔ برآمد کنندگان انکم ٹیکس میں اپنی مجموعی وصولیوں کا صرف ایک فیصد ادا کرتے ہیں لیکن برآمد کنندگان کا دعویٰ ہے کہ وہ تنخواہ دار طبقے کی زیادہ سے زیادہ شرح یعنی پینتیس فیصد کے مساوی (برابر) ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ اسی طرح ریٹیلرز کو فروخت پر صفر اعشاریہ پانچ فیصد ایڈوانس ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے اُور اِس مد میں ایف بی آر نے گزشتہ مالی سال میں ساڑھے پندرہ ارب روپے سے زائد ٹیکس جمع کئے۔ معیشت کے کل حجم میں خوردہ فروشوں اور تھوک فروشوں کا حصہ تقریبا اُنیس فیصد رہا لیکن کل انکم ٹیکس میں ان کا حصہ صرف صفر اعشاریہ چار فیصد تھا۔ گزشتہ مالی سال کے دوران کنٹریکٹرز اور سروس پرووائیڈرز سے ٹیکس وصولی تین فیصد اضافے کے ساتھ 391 ارب روپے رہی اگرچہ یہ سب سے بڑا انکم ٹیکس جمع کرنے والا شعبہ ہے ۔۔ وہ سبھی کاروباری شعبے جن کی آمدنی زیادہ ہے لیکن وہ ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں تو اُن کو ٹیکس نیٹ میں لانا ضروری ہے ۔ گزشتہ مالی سال کے دوران قرضوں پر منافع کی مد میں وصولی میں ایک سو چھ فیصد اضافہ ہوا اور اِس مد میں 320 ارب روپے وصول کئے گئے۔ یہ اضافہ بلند شرح سود اور لوگوں کے پیسے بچانے کے رجحان کی نشاندہی کرتا ہے۔ بینک ’ایف بی آر‘ کی جانب سے بچت اکاو¿نٹس پر دس سے پچاس فیصد انکم ٹیکس وصول کر رہے ہیں۔ اِسی طرح درآمد کنندگان نے مختلف قسم کی درآمدات پر انکم ٹیکس کی مد میں قریب تین سو ارب روپے ادا کئے ہیں جو ود ہولڈنگ ٹیکس کی مد میں وصول کیا جانے والا تیسرا سب سے بڑا حصہ ہے۔ ایک عام آدمی کے نکتہ¿ نظر سے ٹیکس وصولی آمدن اور بود و باش کے تناسب سے ہونی چاہئے اور تنخواہ دار طبقے کی صرف آمدنی ہی نہیں بلکہ اُس کے اخراجات بھی دیکھے جانے چاہیئں اس تمام صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ ٹیکس نظام میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے ۔