محرم الحرام : خصوصی پیغام

مدینہ منورہ سے اہل پشاور کے نام اپنے ’خصوصی پیغام‘ میں سیّد سبطین گیلانی (تاج آغا) نے محرم الحرام کے پہلے عشرہ¿ کے آخری لمحات (نویں اور دسویں محرم الحرام)‘ بالخصوص ’یوم عاشور (دس محرم الحرام کے روز)‘ پنجگانہ نماز و نوافل (صلوة) کی ادائیگی اور روزہ (صوم) کے ساتھ ’درود شریف‘ و ’استغفار‘ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے حرمت والے اِن خصوصی ایام میں عبادات کی اہمیت و افادیت اُجاگر کی ہے۔ اُنہوں نے فرمایا ہے کہ ”یوم عاشور بہت خاص دن ہے اور اِس موقع پر عالم اسلام‘ پاکستان اور خاص کر پشاور کی سلامتی‘ اہل پشاور کے معاشی و سماجی سکون کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑا کر دعائیں کی جائیں۔“ اُنہوں نے سلسلہ قادریہ اور تصوف کے دیگر سلسلوں سے نسبت رکھنے والوں کو نواسہ¿ رسول‘ سید الشہدا¿ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی سیرت پاک پر عمل اور اُن کی عظیم قربانی و استقامت کو عبادات کی کثرت سے خراج تحسین پیش کرنے کی تلقین کی ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ ”اہل بیت ِاطہار کی قربانیوں سے تاریخ ِاسلام کا چہرہ روشن و تابندہ ہے اور کربلا سے اِسلام کو ملنے والی حیات و تقویت ابدی ہے‘ جسے زوال نہیں۔“ تاج آغا نے اپنے پیغام میں شاعرِ مشرق‘ شمس العارفین‘ مخدومِ ملت‘ علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ کے اشعار سے اِمام عالی مقامؓ کی قربانی کا فلسفہ اُور نتیجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ”زندہ حق اَز قوت ِشبیریؓ است .... باطل آخر داغ حسرت میری است (قوت ِشبیری کی برکت سے ہی آج تک حق قائم ہے اور باطل کے مقدر میں حسرت و ناکامی کے سوا کچھ نہیں۔) چوں خلافت رشتہ از قرآن گسیخت .... حریت را زہر اندر کام ریخت (خلافت نے جب قرآن سے اپنا رشتہ توڑ لیا اور حریت و آزادی کے جام میں زہر گھول دیا گیا۔) خاست آن سر جلوہ¿ خیرالامم .... چون سحاب قبلہ باران در قدم (تو اُس وقت خیر الامم کا سرتاج (شہزادہ) بارانِ رحمت کے بادل کی مانند اُٹھا) بر زمین کربلا بارید و رفت .... لالہ در ویرانہ ہا کارید و رفت (اُور یہ بادل کربلا کی زمین پر برسا جس سے ویرانہ گل و گلزار میں تبدیل ہو گیا۔) تا قیامت قطع استبداد کرد....موج خون او چمن ایجاد کرد (یہ امام عالی مقامؓ کی قربانی ہی کا نتیجہ ہے کہ قیامت تک کے لئے جبر و استبداد کا خاتمہ ہو چکا ہے اور امام عالی مقامؓ کے پاکیزہ خون نے گویا اسلام کو شاد و آباد کردیا ہے۔) ماسوی اللہ را مسلمان بندہ نیست .... پیش فرعونے سرش افکندہ نیست (پیغام کربلا یہ ہے کہ مسلمان اللہ تعالی کے بغیر کسی کا غلام نہیں بن سکتا اور اِس کا سر کسی بھی فرعون کے سامنے نہیں جھک سکتا۔) موسی و فرعون و شبیر و یزید .... این دو قوت اَز حیات آید پدید (حقیقت یہ ہے کہ جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلہ میں فرعون اور جناب حسینؓ کے مقابلہ میں یزید آیا بالکل اِسی طرح ہمیشہ سے اِس کشمکش حیات میں یہ دونوں (حق و باطل کی) قوتیں آپس میں برسرِپیکار رہی ہیں اور برسر پیکار رہیں گی تاہم نصرت و کامیابی ہمیشہ حق کی ہو گی کیونکہ یہ قرآن مجید کا وعدہ ہے جس کی سورہ مبارکہ اسرا¿ کی آیت نمبر اکیاسی کے تحت رب تعالیٰ نے جو اَصول بیان فرمایا کربلا والے اُس پیغام کی عملی تفسیر بن کر ہمارے سامنے آئے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ”وَقُل± جَائَ ال±حَقُّ وَزَہَقَ ال±بَاطِلُ اِنَّ ال±بَاطِلَ کَانَ زَہُو±قًا (ترجمہ) ”اعلان فرما دیجئے کہ باطل کو ثبات نہیں۔ جب بھی اِس کا معرکہ حق کے ساتھ ہوا‘ تو حق کے مقابلے میں باطل ہمیشہ پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہوجائے گا۔“)تاج آغا محرم الحرام کے پہلے عشرہ¿ مبارکہ میں عمرہ کی ادائیگی کے لئے سعودی عرب میں ہیں اور یوم عاشور کے خصوصی اعمال و عبادات (تعقیبات) مدینہ منورہ میں ادا کریں گے۔ اپنے پیغام میں اُنہوں نے پشاور میں امن و امان برقرار رکھنے کے لئے ’پولیس فورس‘ کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا ہے اور اہل پشاور سے درخواست کی ہے کہ وہ خیبرپختونخوا اور بالخصوص پشاور پولیس کے فیصلہ سازوں اور جوانوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں۔ سیکورٹی امور میں اِن سے تعاون کریں۔ اِن کے احکامات کی تعمیل کریں اور شائستگی کا سلوک و برتاو¿ کرتے ہوئے محبت سے پیش آئیںکیونکہ پولیس فورس اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں جس خلوص و جانفشانی کا عملی مظاہرہ کر رہی ہے اور جس انداز میں اِس مرتبہ انتظامات کی اطلاعات ہیں اُن کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ محرم الحرام کی مناسبت سے ہونے والی محافل و اجتماعات اُور جلوسوں کی نگرانی میں پولیس فورس کے آفیسرز اُور جوان اپنی جانیں داو¿ پر لگائے ہوئے ہیں۔ اُنہوں نے پاکستان کی سلامتی اور پائیدار (دائمی) قیام امن کے لئے دعائیں کرتے ہوئے کہا کہ ”پاکستان اسلام کا قلعہ اور پورے عالم اسلام کی شان و جان ہے اور جو پاکستان کے خلاف کسی بھی طرح کی سازش کرتا ہے درحقیقت وہ اسلام کے خلاف سازش ہوتی ہے اِس لئے ملک دشمنوں کو اپنے قول و فعل پر نظرثانی کرتے ہوئے ہدایت کی راہ اختیار کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ شان سبحانہ نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان ِمبارک سے یہ فیصلہ جاری فرما دیا ہے کہ ”ایک مسلمان کی دوسرے مسلمان پر جان‘ مال‘ عزت و آبرو حرام ہے۔“پشاور کے سرتاج علمی‘ ادبی‘ مذہبی و روحانی گھرانے کے چشم و چراغ ’تاج آغا‘ کی جانب سے اہل پشاور کے نام خصوصی پیغام پاکستان میں ہجری کلینڈر کے مطابق ’آٹھ محرم الحرام (شب نہم) جبکہ سعودی عرب (مدینہ طیبہ و منورہ) میں نو محرم الحرام (شب عاشور) کے موقع پر جاری کیا گیا ہے اور اِس پیغام میں جن ایک نکتے پر زیادہ زور دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ ”اِمام عالی مقامؓ کی ذات گرامی ’اِختلاف‘ کا نہیں بلکہ ’اِتفاق‘ کا مرکز ہے“ اور مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام کی ذمہ داری (فرض عین) ہے کہ وہ اِس موقع پر‘ اہل بیت اطہار رضوان اللہ اجعمین کی سیرت سے انتخاب و اقتباس کرتے ہوئے کربلا کے عملی پہلوو¿ں کو زیادہ اُجاگر کریں کہ اگر ’کربلا سے درس حریت ملا ہے تو کس طرح اِس ’درس ِحریت‘ کی حفاظت ہو گی‘ کس طرح یہ ’درس حریت‘ نئی نسل کو منتقل کیا جائے گا‘ کس طرح بچوں کی تعلیم و تربیت کے ساتھ اُنہیں اہل بیت کی محبت سے روشناس اور متصل کیا جائے تاکہ دنیاوی وسائل اکٹھا کرنے کی دوڑ میں سلسلہ و منصب ِامامت کی عظیم قربانیوں کے درپردہ عظیم مقاصد ’عمل کی نظروں‘ سے اُوجھل نہ ہوں۔ انہوں نے کربلا کے مقاصد کا شمار کرتے ہوئے کہا کہ کربلا کا پہلا درس حریت و آزادی‘ دوسرا درس امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘ تیسرا درس وفائے عہد ایمان کی نشانی اور چوتھا درس یہ ہے کہ مسلمان اللہ تعالیٰ کی رضا و تسلیم کا عملی نمونہ ہوتا ہے۔ کربلا کا پانچواں درس ’اخلاص‘ ہے جو مکتب عاشورا کا آشکار جلوہ اور گراں قدر گوہر ہے۔ کربلا کا چھٹا درس ’ادب‘ ہے اور تحریک عاشورا میں ’ادب کے بے نظیر نمونے‘ پائے جاتے ہیں۔ کربلا کا ساتواں درس حجاب اُور عفت ہے کہ عورت اپنی عفت اُور پاک دامنی کی حفاظت کرتے ہوئے سماج کو اخلاقی برائیوںسے بچا سکتی ہے۔ کربلا کی تحریک میں حجاب پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے اور مسلمان خواتین کو کربلا کا مطالعہ کرتے ہوئے اِس خاص پہلو پر بھی غور کرنا چاہئے۔ کربلا درس ِحیات اور باعث نجات ہے‘ کربلا کی یاد کسی ایک مہینے یا ایام کی حد تک مخصوص و محدود نہیں کرنی چاہئے بلکہ اِس کا ہر پہلو‘ ہر گوشہ‘ ہر لفظ اور ہر لفظ میں درپردہ معنویت کے اسباق (گوہر)‘ ہر دن اور ہر گھڑی رہنمائی کا نصاب رکھتے ہیں۔ قیام حسینیؓ متقاضی و منتظر ہے کہ مسلمان کب مسالک سے بالاتر ہو کر کربلا کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور کربلا سے ملنے والی فکر و عمل کی دعوت کو ’کماحقہ‘ دل و جان سے قبول کیا جاتا ہے۔ ضرورت اِس اَمر کی بھی ہے کہ ’کربلا شناسی‘ اور ’کربلا کے پیغام‘ کو عام کیا جائے اور اِس مقصد کے ہر ممکنہ ذرائع ابلاغ خاص کر سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال کیا جائے۔ نوجوانوں کو دعوت ِفکر دینی چاہئے کہ وہ غور کریں کہ اِمام عالی مقامؓ کے قیام کا مقصد انفرادی و اجتماعی زندگیوں میں کس طرح رائج کیا جا سکتا ہے؟ کربلا فراموش کرنے کی گھڑی نہیں لیکن اگر اِسے خدانخواستہ فراموش کیا گیا تو اِس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ مسلمان ’گم‘ ہو جائیں گے کیونکہ کربلا راہ¿ روشن اور راہ¿ نجات ہے اور اگر یہ راہ و روش آج مسلمانوں کے قول و فعل سے عیاں نہیں ہو رہی۔