امام حسین بن علی المرتضیٰ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ’مظہر‘ ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کا پیغام (درس حریت) کسی ایک مذہب کی میراث نہیں بلکہ کربلا زمانوں کا سفر کرتے ہوئے مذاہب‘ عہدوں اور تہذیبوں سے برتر اور بالاتر ہے۔ آج 1445 ہجری کا ’یوم عاشور (دس محرم الحرام) ہے‘ سن اکسٹھ ہجری میں کربلا جس مقصد کےلئے وقوع پذیر ہوا اور جس عظیم مقصد کےلئے عزیز و اقارب‘ بچوں اور ساتھیوں کی قربانیاں دی گئیں اُسے عملی جامہ پہنانے اور مسلمانوں کی زندگی میں انقلاب برپا کرنے کے حوالے سے جس قدر بھی غور و فکر ہوا ہے وہ ہنوز کم ہے‘ضروری ہے کہ امام عالی مقامؓ کے کردار اور ناقابل یقین حد تک انتہائی مشکل ترین حالات میں کئے گئے اُن کے فیصلوں اور اِن فیصلوں کی طاقت و اللہ تعالیٰ پر اُن کے ایمان و اعتقاد کو سمجھا جائے جس کی ایمان و یقین کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی‘آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق حقیقی اسلامی تعلیمات سے ان کی وابستگی اور ظلم و جبر و غیرشرعی احکامات کے خلاف کھڑے ہونے کا حوصلہ بنا تربیت ممکن نہیں تھا ‘ یہ طرزعمل انسانیت کے عملی اسباق کا ’حیرت انگیز باب‘ اور قابل تقلید نمونہ (مثال) ہے‘ آج جبکہ برق رفتار معلومات کے تبادلے کا دور ہے ‘ بنی نوع انسان عدم مساوات‘ امتیازی سلوک اور تباہی کے دہانے پر کھڑا منصفانہ سماجی و اقتصادی نظام کی راہ دیکھ رہا ہے‘ آج خون ِمسلم اور عزت مسلم ارزاں ترین جنس ہے! تو اِس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ کربلا کو فراموش نہیں بلکہ نظرانداز کیا جا رہا ہے!موجودہ عراق کے شہر ’کربلائے معلیٰ‘ کی بنجر ریت پر جن اصولوں کی بنیاد رکھی گئی اور جس طرح پانی اور خوراک نہ ملنے کے باوجود باطل کی بیعت (فرماں برداری) کے مطالبے کے آگے سر نہیں جھکایا گیا تو کیا دنیا کے پاس ایسی کوئی دوسری مثال موجود ہے جو کربلائے حسینؓ کے پیغام کا خلاصہ ہی پیش کر سکے اور جو زندگی کے تمام شعبوں کا احاطہ کرنے کے لئے بھی کافی ہو؟ کربلا کا پیغام رنگ نسل مذہب و فرقے اور عقیدے سے بالاتر ہے جس کا مقصد انسانیت کی آزادی ہے اور امام عالی مقام اعلیٰ اقدار کے علمبردار ہیں جو جبر و ظلم کے خلاف سینہ تان کر کھڑی نظر آتی ہے۔ غلامی کے خلاف حضرت حسینؓ کی استقامت کامیابی کی ضمانت اور انسانیت کے لئے رہنما ہے کہ ’لا الہ الا اللہ‘ کا زبان سے اقرار اور دل سے اِسے تسلیم کرنے کے بعد دنیاوی اسباب کی کوئی وقعت نہیں رہتی۔ امام حسینؓ سے قول و فعل کی رہنمائی حاصل کرنے کے لئے امامؓ تو پوری انسانیت کے لئے رہنما ہیں اور ہر دور میں راست بازوں کو مساوات و آزادی کے لئے مضبوطی سے کھڑے ہونے کا حوصلہ دیتے رہیں گے شاید یہی وجہ ہے کہ جوش ملیح آبادی نے کہا تھا کہ ”انسان کو بیدار تو ہو لینے دو .... ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؓ“ اِمام عالی مقام سے محبت اسلام کی بنیاد و اساس بھی ہے کیونکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی گود میں آپ رضی اللہ عنہ کی پرورش ہوئی اور رسالت کی زبان سے بار بار کہا گیا کہ ”حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں“ حدیث مبارکہ کا یہ جملہ درحقیقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اُن کے نواسے کے درمیان ایک ہونے (وحدانیت) کا ثبوت ہے‘ جنہوں نے بغیر کسی مصلحت‘ قربانی سے دریغ نہیں کیا اور اپنے نانا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فضیلت و عظمت اور محنت کو ضائع نہیں ہونے دیا جو اسلام کو قائم رکھنے کا مقصد پورا کرنا ہے۔ مقصد بڑا ہو تو استقامت بھی زیادہ بڑے امتحان کی متقاضی ہوتی ہے۔ امتحان بڑا ہو تو درجہ بھی بلند حاصل ہوتا ہے۔ یوم عاشور (دس محرم الحرام) جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ”خدا کی قسم میں کبھی بھی ذلت تسلیم نہیں کروں گا اور نہ ہی غلاموں کی طرح بیعت کروں گا“ تو جواب میں اُن کے چھ ماہ اور اٹھارہ سال کے بیٹوں اور بھائی کو شہید کر دیا گیا اہل بیت اطہار کے بچوں بڑوں اور اُن کے ساتھیوں کو چن چن کر تہہ تیغ کیا گیا اور اُن کے جسم گھوڑوں کے ذریعے پائمال کئے گئے۔ تب امام عالی مقامؓ نے ایک آواز بلند کی ۔ ترجمہ ”کوئی ہے جو میری مدد کرے اور نصرت سے ہم کنار ہو جائے؟“ اِس دعوت کی گونج آج بھی ہے۔ ’یوم ِعاشور‘ صدائے کربلا یہی ہے کہ اِمام عالی مقام کے نقش قدم پر چل کر بنی نوع انسان فلاح و نجات پا سکتی ہے۔امام حسینؓ ایک شرعی ذمہ داری بھی ادا کر رہے تھے۔ ایک وعدہ نبھا رہے تھے۔ اُن کا مقصد اقتدار نہیں تھا اور یہی وجہ تھی کہ آپؓ نے کہا ”مجھ جیسا اُس جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا“ اور ”ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے“ اور ذلت ہم سے دور ہے“ تو پھر تاریخ نے لکھا کہ تعداد میں کم ہونے کے باوجود معرفت‘ احساس ذمہ داری‘ استقامت اورجرا¿ت کی عظیم مثال بن کر ایک ایسا تاریخ ساز واقعہ وجود میں آیا جو رہتی دنیا تک آزادی پسندوں‘ باضمیر اور عدالت و انصاف کے متلاشیوں کے لئے مشعل راہ اور نور ہدایت بن گیا۔امام حسینؓ ہر زمانے اور جملہ انسانوں کے پیشوا ہیں۔ چاہے اِن کا تعلق کسی بھی مذہب و فرقے سے ہو‘ کسی بھی زمانے سے ہو ‘ قرآن کے دستورات اور سنت جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے اخذ شدہ اسلام کے آفاقی اصول ہمیشہ بالادست رہیں گے۔ امام عالی مقامؓ نبی آخرالزماں کا فرزند‘ وارث امامت‘ حافظ ومحافظ اسلام ہیں جس کی منزلت‘ فضیلت اور عظمت سے کتب بھری پڑی ہیں۔ ہر دور میں اِمام عالی مقام ؓ کی قربانی پر غور ہوا اور ہر دور میں اُن کی استقامت و قربانی سے نت نئے معانی کی صورت توانائی حاصل کی گئی۔ یوم عاشور کا پیغام یہ ہے کہ ’تحفظ ِاسلام‘ کے لئے جملہ وسائل مختص کئے جائیں اور قرآن وسنت کی بقاءکےلئے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کیا جائے۔ القصہ مختصر اسلام اور انسانیت کے لئے جدوجہد کرنے والوں کو آج بھی اِمام حسینؓ کی استقامت و قربانی سے تقویت مل رہی ہے اور کربلا قیامت تک ہدایت کا مینار (رہنما) رہے گا۔ ”در نوائے زندگی سوز اَز حسینؓ .... اِہل حق حریت آموز اَز حسینؓ (علامہ اِقبالؒ)۔“