مسلسل چوتھی قومی اسمبلی اپنی آئینی مدت پور ی کرنے والی ہے مگر اسکے با وجودتشویشنا ک بات یہ ہے کہ ایک مرتبہ پھر الیکشن کے انعقادپر شکوک وشبہات کااظہارکیاجارہاہے پہلے کہاگیاکہ الیکشن ہونگے ہی نہیں طویل المدت نگران حکومت قائم کرکے اگلے ایک سے دو سال تک معیشت کی صفائی کی جائےگی پھرکہا جانے لگاکہ نگران حکومت کے قیام کے بعدحالات ایسے ہوجائیں گے کہ مجبوراً الیکشن چندماہ کےلئے ملتوی کردیئے جائیںگے یہی وجہ ابھی تک کسی کو بھی یقین نہیں کہ الیکشن ہونگے یانہیں ‘جب پنجاب اورخیبرپختونخوااسمبلیاں تحلیل کی گئیں تو آئین کے تحت نوے روز کے اندر دونوں صوبوں میں انتخابات کاعمل مکمل کیاجاناضروری تھاجب حکومت کی طرف سے ٹال مٹول سے کام لیاجانے لگا تو عدالت عظمیٰ سے رجوع کیاگیا عدالت نے بروقت الیکشن کاحکم بھی دیا مگر اس کے بعد چراغوں میں روشنی ہی باقی نہ رہی ‘ اگر پیچھے جائیں تو 2018ءکے الیکشن کے حوالہ سے بھی کچھ یہی صورت حال تھی افواہوں کابازار گرم تھا تین سالہ نگران سیٹ اپ کے قیام کی باتیں زبان زد عام تھیں یہی وجہ تھی کہ ان دنوں پہلی بارانتخابی مہم خاصی پھیکی رہی کیونکہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ انکے امیدواربھی گومگوں کی کیفیت میں مبتلاءہوگئے تھے مگر انتخابی مہم مسلسل چلتی رہی پھر اچانک امیدوارو ں پرحملے شروع ہوگئے جسکے بعدپھرکہاجانے لگاکہ اب تو الیکشن گئے مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا عسکری اور عدالتی قیادت نے ان حالات میں واضح اور دوٹو ک موقف اختیار کرتے ہوئے الیکشن کے التواءکے ہرامکان کو یکسر مسترد کرکے رکھ دیاجسکے بعد قوم نے نئے مینڈیٹ کاانتخاب کیاویسے بھی وطن عزیز میں انتخابات کی تاریخ کچھ زیادہ شاندار نہیں کیونکہ ملک میں پہلے عام انتخابات کی نوبت آزادی کے 23سال بعد جاکر آئی جب 1970ءمیں انتخابات کاڈول ڈالاگیا مگر بدقسمتی سے ملک کے پہلے عام انتخابات آدھے ملک کو نگل گئے ‘آزاد ی کے بعدسے انتخابات کاتسلسل جاری رہتا تو تیئس سال بعد ہونےوالے انتخابات کے مرحلہ پرسیاسی عدم برداشت اس قدر نہ ہوتی کہ دونوں بڑی جماعتوںکی میں نہ مانوں کی ضد نے ملک ہی دولخت کردیا اسکے بعد 1977ءمیںملک کے دوسر ے عام انتخابا ت ہوئے یہ انتخابات بھی ملک کےلئے چنداں خوشگوار ثابت نہ ہوسکے اور ملک پر مارشل لاءکی طویل سیاہ رات مسلط ہوگئی‘بدقسمتی دیکھئے کہ 1985ءمیں تیسرے عام انتخابات ہوئے تو بھی ملک کو مسائل سے ہی دوچار کرکے رکھ دیاگیاکیونکہ ان غیر جماعتی انتخابات کے نتیجہ میں ملک پر برادری ازم اور شخصیت پرستی کے منحوس سائے کچھ ایسے گہرے ہوگئے کہ آج تک چھٹنے کانام ہی نہیں لے رہے یوں پہلے تین عام انتخابات ملک کے لئے مسائل ہی لے کرآئے پھر 1988،1990،1993اور 1997میں انتخابات ہوئے مگر کسی اسمبلی نے مدت پور ی نہ کی دونوں بڑی جماعتوں کے درمیان اقتدار کےلئے رسہ کشی جاری رہی چنانچہ عدم برداشت کی بڑھتی سیاست نے ووٹروں کاجمہوریت اور پارلیمانی سیاست پر اعتمادمتزلزل کرنا شروع کردیا 2002ءمیںہونےوالے انتخابات اس لحاظ سے منفردثابت ہوئے کہ دونوںبڑی جماعتوں کی قیادت یعنی میاں نوازشریف اور بے نظیر بھٹوجلاوطن تھے ان الیکشن کے نتیجہ میں وجودمیںآنے والی اسمبلیا ں ملک کی تاریخ کی اولین اسمبلیاں بن گئیں جنہوں نے آئینی مدت پوری کرنے کااعزازحاصل کیا جس کے بعدبتدریج پارلیمانی جمہوریت استحکام کی طرف گامزن ہوتی چلی گئی ‘2008کے انتخابات کامرحلہ آیا تو بے نظیربھٹوانتخابی مہم میں جان کی بازی ہار گئیں مگر انتخابی عمل کوروکانہ جاسکا اور چالیس دن کی تاخیر سے الیکشن منعقد کروائے گئے جسکے بعدان اسمبلیوںنے بھی پانچ سال نکال لئے یہ ایک اور خوشگوار مرحلہ تھا‘پھر 2013ءکے انتخابات ہوئے ان کے نتیجہ میں وجود میں آنے والی اسمبلیاں مشکل ترین حالات میں سخت جان ثابت ہوئیں‘یوں تیسری باراسمبلیوںنے مدت پور ی کرکے ایک اہم سنگ میل عبور کرلیا پھر غیر یقینی کی صورتحال میں2018کے انتخابات ہوئے اور پہلی بار ایک تیسری سیاسی جماعت نے انٹر ی دی اگرچہ اس کو حکومت پوری کرنے کاموقع نہ مل سکا اورپہلی بار کوئی حکومت عدم اعتماد کے نتیجہ میں اقتدار سے محروم ہوئی امید تھی کہ چندماہ میں الیکشن ہوجائیں گے تاہم پی ڈ ی ایم کی حکومت نے کسی نہ کسی طرح مدت پوری کرلی اور اب چند دنوں میں یہ سیٹ اپ رخصت ہونےوالاہے‘پوری قوم نئی قیادت کے انتخاب کےلئے تیارہے تاہم بوجوہ انتخابات کے انعقاد پرغیریقینی کے بادل چھائے ہوئے ہیں مختلف قسم کے فارمولے زیر گردش ہیں ملک کے پہلے عام انتخابات سے لے کر اگلے بارہویں انتخابات تک اس قوم نے کئی مدوجذر دیکھے ،اس کو تین مارشل لاﺅں سے گذرنا پڑا ایک منتخب وزیر اعظم کی پھانسی کامرحلہ بھی عبور کرنا پڑا ‘ ایک صدر اور فوج کے سربراہ فضائی طیارے کے حادثے کی نذرہوئے دوبار وزیر اعظم رہنے والی سیاسی شخصیت دہشتگردی کانشانہ بنی تین بار وزیر اعظم رہنے والے کو نااہل کیا گیا اور جس پارٹی نے پہلی بار اقتدار سنبھالا‘ اسکے سربراہ اور سابق وزیر اعظم کو ریکارڈمقدمات کاسامناہے ‘پرامن شفاف اور غیر جانبدارانہ الیکشن کےلئے ماحول کی فراہمی اگرچہ نگران حکومتوں اور سکیورٹی اداروںکی بنیاد ی ذمہ داری توہے لیکن اس سلسلہ میں تمام سیاسی جماعتوں اور پارلیمانی جمہوریت پر یقین رکھنے والوں کوبھی کردار ادا کرنا پڑے گا کیونکہ ہمارا مستقبل جمہوریت سے ہی جڑا ہوا ہے اور اس کو مستحکم بنانا ایک مشترکہ ذمہ داری ہے خیبرپختوا میںایسے حالات میں الیکشن ہورہے ہیں کہ ایک بارپھر دہشتگردسرگرم عمل ہوچکے ہیں ایک سال میں سترہ سے زائد خود کش دھماکے ہوچکے ہیں مگر ووٹر کاجذبہ برقرارہے‘ یہی جمہوریت مخالف قوتوں کی شکست ہے ۔