پاکستان میں سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے ’خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (اسپیشل انوسیٹمنٹ فایسیلی ٹیشن کونسل SIFC) بنائی گئی اور اِس نئی کونسل نے ’اربوں ڈالر مالیت کے اٹھائیس منصوبوں‘ کی اصولی منظوری دی ہے جو خلیجی ممالک کو سرمایہ کاری کیلئے پیش کئے جائیں گے‘ اِن میں دیامیر بھاشا ڈیم کے باقی ماندہ کام مکمل کرنے اور بلوچستان کے ضلع چاغی کے ریکوڈک میں کان کنی بھی شامل ہے جہاں سونے اور دیگر قیمتی دھاتوں کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ غیرملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کیلئے پاکستان کی جانب سے یہ پہلا قدم اپنی جگہ اہم لیکن اِس حکمت عملی کی کامیابی کا دارومدار قطر‘ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات اور بحرین پر ہے جو پاکستان کی سرزمین پر موجود قدرتی وسائل کو ترقی دینے کی صورت فائدہ اُٹھاتے ہیں یا نہیں۔ اُمید یہی ہے کہ ’ایس آئی ایف سی‘ کے بینر تلے سرمایہ کاری کا حجم چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کے تحت ہونیوالی سرمایہ کاری سے زیادہ ہوسکتا ہے۔ ابتدائی طور پر غیرملکی سرمایہ کاری کیلئے منظور شدہ منصوبوں میں خوراک‘ زراعت‘ انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ کانوں اور معدنیات‘ پیٹرولیم اُور بجلی کے شعبوں میں ہیں۔ ان منصوبوں مویشیوں کے فارم بھی شامل ہیں۔ رواں ہفتے ’ایس آئی ایف سی‘ ورکنگ کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کیلئے پارلیمنٹ نے پاکستان آرمی ایکٹ اور بورڈ آف انویسٹمنٹ (بی او آئی) آرڈیننس میں متعدد ترامیم کی منظوری دی تھی۔ نگراں حکومت کے دور میں ان سکیموں پر کام کے تسلسل کو یقینی بنانے کیلئے الیکشن ایکٹ میں بھی چند ترامیم متعارف کرائی گئی ہیں‘ جس سے حکومت کی سنجیدگی کا علم ہوتا ہے۔ یہ قوانین ابتدائی طور پر منظور شدہ اٹھائیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے منصوبوں پر عملدرآمد یقینی بنانے میں معاونت فراہم کریں گے اسکے علاؤہ سرمایہ کاری کی اجازت دینے والوں کو مستقبل میں انٹی کرپشن ادارے طلب نہیں کر سکیں گے اور اُنکے خلاف اربوں ڈالر کے منصوبے منظور کرنے میں اگر بدعنوانیوں کا شائبہ ہوا یا اطلاعات ہوئیں تو بھی تحقیقات نہیں کی جائیں گی اور فیصلہ سازوں کو قانونی استثنیٰ دیا جائیگا‘ ایک اور قانون پاکستان ’سوورن ویلتھ فنڈ‘ بھی منظوری کے قریب ہے جس کا مسودہ پارلیمان کے مختلف مراحل میں زیرغور ہے اُور یہ ’ایس آئی ایف سی‘ سے منظور شدہ منصوبوں کو سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھنے والے ممالک کے ساتھ مشترکہ منصوبوں یا سنگل اونرشپ سکیموں کیلئے مالی و افرادی وسائل (ایکویٹی) فراہم کریگا قابل ذکر ہے کہ ’بلیو چپ‘ کمپنیوں سمیت سات منافع بخش سرکاری اداروں کے اثاثے ’ایس آئی ایف سی‘ کی جانب سے منظور شدہ منصوبوں کے استعمال کے لئے ویلتھ فنڈ میں منتقل کئے جا رہے ہیں۔ ’ایس آئی ایف سی‘ کے قیام کا مقصد وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ بھی دینا ہے تاکہ بروقت فیصلہ سازی کے عمل کو آسان بنایا جا سکے‘ جس سے سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ ہو اور ترقیاتی منصوبے پر تیزی سے عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔ ابتدائی طور پر پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے 23 ممالک کی نشاندہی کی گئی ہے لیکن پاکستان کی بنیادی توجہ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات‘ قطر اور بحرین پر ہے۔ پہلے مرحلے میں پاکستان اِن ممالک (سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات‘ قطر اور بحرین)کے شہریوں کو ترجیحی ویزے جاری کریگا تاکہ ان منصوبوں پر تیزی سے عملدرآمد کیا جا سکے‘ ایسا اِس لئے کیا جا رہا ہے کیونکہ ایک حکومتی دستاویز کے مطابق ’سی پیک‘ سمیت دیگر اہم(اسٹریٹجک) منصوبوں پر کام کی رفتار اِسلئے سست ہے کیونکہ اِس کی راہ میں افسرشاہی حائل ہوتی ہے اُور سرکاری دفاتر اور بالخصوص آفیسرز کو ایسے اختیارات حاصل ہیں جو صنعتی ترقی و سرمایہ کاری کی راہ میں حائل ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ اسلام آباد اور بیجنگ نے ’سی پیک‘ کے تحت مجموعی طور پر 62ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا منصوبہ بنایا تھا لیکن اب تک 28 ارب ڈالر سے بھی کم کی سرمایہ کاری ہو سکی ہے۔ وزیر اعظم اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے معاشی فیصلے اپنے ہاتھوں میں لینے کے بعد پاکستان نے گزشتہ ماہ ملک کو دیوالیہ (ڈیفالٹ) ہونے سے بچایا اور اِس سلسلے میں پہلی کامیابی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ 3 ارب ڈالر کا نیا قرض معاہدہ طے پانے کی صورت سامنے آیا ہے‘پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاری کا مستقبل روشن دکھائی دے رہا ہے‘ اِس کی وجہ یہ ہے کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ سول ملٹری قیادت نے سیاسی قیادت کے ساتھ مشترکہ طور پر معیشت چلانے کا بیڑا اُٹھایا ہے‘ اِس منفرد کوشش کا مقصد خلیجی ممالک سے سرمایہ کاری راغب کرنا ہے تاکہ پاکستان کے غیر قرضوں کی واپسی اُور قومی ضروریات کیلئے درآمدات پر انحصار کم کیا جا سکے۔ قابل ذکر ہے کہ پاکستان نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے جن ممکنہ منصوبوں کی نشاندہی کی ہے اُن میں سے زیادہ تر منصوبے ’حکومت سے حکومت کے تعاون‘ کی بنیاد پر کئے جائیں گے تاہم ایسے منصوبے بھی شامل ہیں جن کیلئے بین الاقوامی سطح پر بولی لگائی جائیگی‘پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاری کیلئے جن شعبوں کا انتخاب کرتے ہوئے دنیا کے سامنے پیش کئے گئے ہیں اُن میں ’ایس آئی ایف سی‘ کی اپیکس کمیٹی کی جانب سے صحرائے چولستان میں 10ہزار ایکڑ پر کارپوریٹ فارمنگ کے منصوبے کی منظوری بھی شامل ہے اور حکمت عملی یہ ہے کہ اِسے پچاسی ہزار ایکڑ تک بڑھایا جائے گا۔ پنجاب کے محکمہ زراعت کی جانب سے پیش کی جانے والی ابتدائی پریزنٹیشنز سے پتہ چلتا ہے کہ صوبائی حکومت کو اس اسکیم پر عمل درآمد کیلئے بہت زیادہ کام کرنا ہوگا کیونکہ اب تک 10 ہزار ایکڑ میں سے صرف 500 ایکڑ پر ہی زراعت کی گئی ہے۔ پاکستان کی جانب سے زرعی شعبے میں سرمایہ کاری کی پیشکش کا پہلا مثبت جواب ’قطر‘ کی جانب سے آیا ہے جس نے اپنے ہاں غذائی تحفظ کیلئے پاکستان میں سرمایہ کاری میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے اُور اُمید ہے کہ قطر اِس سلسلے میں پہلا سرمایہ کار ملک ہوگا۔ ’ایس آئی ایف سی‘ نے ڈیری کمپنی کے قیام کی بھی منظوری دی ہے جس کے لئے بیس ہزار ہولسٹین فریزیئن (مال مویشیوں کی ایک بین الاقوامی نسل) جانور خریدے جائیں گے اور فیصلے کے مطابق اِن ڈیری فارمز کی تعداد مزید بڑھائی جائیگی ’ایس آئی ایف سی‘ نے دس ہزار جانوروں پر مشتمل کارپوریٹ اونٹ فارم کے قیام کی بھی منظوری دی جسے وقت کیساتھ مزید بڑھایا جائے گا۔ ’ایس آئی ایف سی‘ نے ٹیکنالوجی زونز کے قیام‘ آپٹیکل فائبر نیٹ ورک میں سرمایہ کاری کے منصوبے‘ کلاؤڈ انفراسٹرکچر اور سیمی کنڈکٹر ڈیزائنر کے قیام‘ اسمارٹ ڈیوائسز کی مینوفیکچرنگ‘ گلوبل اسکل ہب اسکیم اور مختلف سینٹرز آف ایکسیلینس کے قیام کی منظوری دی ہے۔ ’ایس آئی ایف سی‘ نے چنیوٹ آئرن اور منصوبے‘ بریٹ لیڈ زنک منصوبے‘ چاغی میں تانبے اور سونے کی تلاش کے ساتھ خضدار میں سیسہ اور زنک کی تلاش کی بھی منظوری دی ہے جبکہ دس ارب ڈالر کی لاگت سے سعودی آرامکو آئل ریفائنری اور تاپی گیس پائپ لائن منصوبے کی تکمیل کی بھی منظوری دیدی گئی ہے ایس آئی ایف سی نے آبی ذخائر کی تعمیر کے منصوبے پر فزیبلٹی سٹڈی کی منظوری دی ہے جبکہ چولستان (صحرا) میں آبپاشی اُور اضافی سیلابی پانی جمع کرنے‘ چشمہ رائٹ بینک کینال منصوبے پر پیشرفت رپورٹیں طلب کی گئیں ہیں۔ قومی اسمبلی نے ’ایس آئی ایف سی‘ کے کام کاج کو قانونی تحفظ دینے کیلئے ’بی او آئی‘ قانون میں ترامیم کی منظوری دی ہے‘ دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان میں امن و امان کے حالات اور سیاسی عدم استحکام اِن منصوبوں کو کس حد تک کامیاب بنانے دیں گے۔