بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے قرض کی صورت مالیاتی پیکج سے معیشت کو وقتی ’راحت کا سانس‘ تو آیا ہے تاہم ضروری ہے کہ پاکستان کی معاشی خود انحصاری اور طویل مدتی استحکام کے لئے سوچ بچار اور جدوجہد کے عمل کو تیز کیا جائے اور معیشت سے متعلق قومی حکمت عملی پر نظرثانی (تبدیلی) کے لئے ’ڈیجیٹل معیشت‘ اپنانا قومی فیصلوں میں اوّلین ترجیح ہونی چاہئے۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان کی کل آبادی کا ’53فیصد‘ براڈ بینڈ انٹرنیٹ صارفین ہیں جن کی فی الوقت تعداد 12 کروڑ 70 لاکھ ہے اور اِن میں 12 کروڑ 40 لاکھ صارفین موبائل فون کے ذریعے انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہیں۔ یہ افسوسناک صورتحال جن حقائق کی عکاسی کر رہی ہے اُس میں پہلی اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کی تقریباً نصف آبادی انٹرنیٹ استعمال نہیں کر رہی جسے تکنیکی اصطلاح میں ’آف لائن‘ کہا جاتا ہے اِس عدم توازن کو درست کرنے کے لئے آئندہ دو برس کے لئے کم از کم ’5 کروڑ (پچاس ملین)‘ پاکستانیوں کو ’آن لائن‘ لانے کے لئے جامع اقدامات کی ضرورت ہے۔ انٹرنیٹ سے جڑنے کا مطلب صرف تفریح نہیں بلکہ اِس کی مدد سے تعلیم و صحت اور معیشت و مالیات کے شعبوں میں خدمات کو توسیع دیتے ہوئے اِن سہولیات کی عوام تک رسائی بہتر بنائی جا سکتی ہے جو خوشحال مستقبل کے حصول کی جانب اہم پیشرفت ہوگی۔
ڈیجیٹل شراکت داری کو زیادہ سے زیادہ وسیع اور سہل و آسان بنانے کے لئے‘ فیصلہ سازوں کو جن عملی اقدامات پر غور کرنا چاہئے اُس میں پہلی ضرورت ’انٹرنیٹ کی قیمت میں کمی‘ ہے۔ پاکستان کا شمار دنیا کے اُن چند ممالک میں ہوتا ہے جہاں کے ’ٹیلی کام سیکٹر‘ پر بالواسطہ اور بلاواسطہ غیرمعمولی شرح سے ٹیکس عائد ہیں یعنی ٹیلی کام شعبے میں خدمات سرانجام دینے والوں اور صارفین کو ساڑھے چونتیس فیصد ٹیکس ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ ’آئی ایم ایف‘ کے ورکنگ پیپر ’ترقی پذیر ممالک میں ٹیلی کمیونیکیشن پر عائد ٹیکس‘ کے عنوان سے جاری کردہ ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ”زیادہ ٹیکسوں کی وجہ سے ٹیلی کام سیکٹر (موبائل فونز) تک رسائی محدود ہوتی ہے اور اگرچہ حکومت کو وقتی طور پر آمدنی حاصل ہو رہا ہوتی ہے لیکن یہ آمدنی قلیل مدتی ہے جبکہ ٹیلی کام شعبے پر عائد ٹیکس کم کر کے طویل المدتی فوائد حاصل کئے جا سکتے ہیں۔“ ٹیلی کام سیکٹر پر عائد ٹیکسوں کی شرح کم کرنے کو اِس لئے بھی ضروری قرار دیا گیا ہے کہ اِس سے آبادی کے ایک بڑے حصے کو نہ صرف کاروباری سرگرمیوں سے وابستہ ہونے کا موقع ملے گا بلکہ اِن کی معاشی استطاعت میں بھی اضافہ ممکن ہوگا۔ ’براڈ بینڈ‘ انٹرنیٹ کے زیادہ صارفین (پھیلاو¿) سے حاصل ہونے والے وسیع معاشی فوائد میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اِس سے حکومت کو معقول مقدار میں ٹیکس حاصل ہوں گے اور اِس سے طویل مدت (لمبے عرصے کے لئے) محصولات میں اضافہ بھی ممکن ہوگا۔ اِس حوالے سے مختلف مطالعات کے مطابق معاشرے کے کم آمدنی والے طبقوں کو انٹرنیٹ تک رسائی فراہم کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ’سمارٹ فونز‘ کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ براڈ بینڈ کمیشن نے ’یونیورسل سمارٹ فونز تک رسائی سے متعلق حکمت عملی‘ کے عنوان سے اپنی حالیہ رپورٹ میں اِس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ متعدد کم اور متوسط آمدنی رکھنے والے ممالک میں سمارٹ فونز کی قیمت اوسط کسی صارف کی ماہانہ آمدنی کے 70فیصد سے زیادہ ہوسکتی ہے۔ سمارٹ فونز پر عائد ٹیکسوں (لیویز اور ڈیوٹیز) کو معقول بنانے سے ان کو استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد میں اضافہ ممکن ہے یعنی اِس سے زیادہ آبادی کے ’آن لائن‘ ہونے کی حوصلہ افزائی ہوگی اور اس بات کو یقینی بنایا جا سکے گا کہ زیادہ سے زیادہ افراد کے پاس مواصلاتی رابطوں سے جڑنے کے ذرائع موجود ہوں۔ مزید برآں مستحکم ٹیلی کام سیکٹر کسی بھی ملک کے ’ڈیجیٹل ایکو سسٹم‘ کی بنیاد قرار دیا جاتا ہے جس میں صارفین کو بہتر سے بہتر انٹرنیٹ خدمات فراہم کی جاتی ہیں اور اِس قسم کی سرمایہ کاری سے خدمات کے معیار میں مستقل بہتری آتی ہے تاہم پاکستان میں ’ٹیلی کام انڈسٹری‘ کی حالت زیادہ مثالی نہیں کیونکہ اِس شعبے میں سرمایہ کاری کرنے والوں کے لئے کاروباری اخراجات جن میں ایندھن و بجلی کی قیمت اور سود کی شرح بنیادی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں جبکہ ڈالروں میں وصول کئے جانے والے ٹیکس میں مسلسل اضافے کی وجہ سے اِس شعبے کی ترقی بُری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ اگر ’ٹیلی کام لائسنس‘ کی قیمتوں کو امریکی ڈالر کی بجائے پاکستانی روپے میں رکھا جائے تو اِس سے صارفین کو کم قیمت خدمات میسر آئیں گی جبکہ اِس تبدیلی سے ٹیلی کام آپریٹرز اپنی خدمات کے معیار کو بہتر بنانے اور نیٹ ورکس کو اپ گریڈ کرنے میں زیادہ مو¿ثر طریقے سے سرمایہ کاری کر سکیں گے۔ حکومت کے لئے بنیادی ہدف صارفین کو کم قیمت انٹرنیٹ اور مواصلاتی رابطوں سے جڑی خدمات کی فراہمی ہونی چاہئے۔ڈیجیٹل وسائل کے زیادہ استعمال سے پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے اور اِس طرح معاشی توسیع کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے۔ انٹرنیٹ تک رسائی کا مطلب یہ ہے کہ دنیا پر مواقعوں کے دروازے کھولے جائیں۔ عوام کے لئے بہتر تعلیم‘ صحت کی بہتر دیکھ بھال‘ مالیاتی و دیگر شعبوں کی کارکردگی بہتر بنائی جا سکتی ہے۔ پاکستان میں اہلیت و ذہانت کی کوئی کمی نہیں لیکن اگر ڈیجیٹل وسائل کا استعمال عام کیا جائے تو اِس سے نوجوانوں کو قومی ترقی میں شرکت (ہاتھ بٹانے) کا موقع میسر آئے گا۔ ڈیجیٹل اسلوب سے تعلیم کے ذریعے آنے والی نسلوں کو بااختیار بنانا ممکن ہے۔ آن لائن تعلیمی وسائل اور ای لرننگ پلیٹ فارمز تک رسائی سے تعلیمی مواقعوں میں اضافہ ممکن ہے جبکہ اِس سے تعلیمی عدم مساوات کو بھی کم یا ختم کیا جا سکتا ہے۔ اِس سے نوجوان ڈیجیٹل دور میں آگے بڑھنے اور ملک کی سماجی و اقتصادی ترقی میں حصہ ڈالنے کے قابل ہو سکیں گے جس کے لئے ضروری علم و مہارت سے لیس ہو کر نوجوانوں کو بااختیار بنایا جا سکتا ہے۔ ڈیجیٹل اسلوب نہ صرف انفرادی زندگیوں کو تبدیل کرتا ہے بلکہ اِس سے مجموعی طور پر معیشت پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ افراد کو ڈیجیٹل دنیا سے جوڑ کر‘ قومی فیصلہ ساز انٹرپرینیورشپ اور جدید روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کی راہیں کھول سکتے ہیں۔ ڈیجیٹل شراکت داری سے پیداواری صلاحیت میں اضافہ‘ معاشی تنوع اور مضبوط افرادی قوت پیدا ہوتی ہے جو درحقیقت پاکستان کی اقتصادی ترقی کو آگے بڑھانے کی صلاحیت رکھتی ہے تاہم اِس کے لئے ایک جامع روڈ میپ (لائحہ عمل) کی ضرورت ہے۔