حالیہ اخباری رپورٹ کے مطابق پاکستان سے گزشتہ ایک سال کے دوران بارہ لاکھ شہری بیرون ملک جا چکے ہیں۔روزگار کی تلاش میں بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کی مجموعی تعداد ایک کروڑ 28لاکھ، 56ہزار519ہوگئی جو مجموعی آبادی کا 5اعشاریہ 14فیصد ہے۔ یہ اعدادوشمار سمندر پار پاکستانیوں کی وزارت نے جاری کئے ہیں بغیر قانونی دستاویزات ایجنٹوں کی وساطت سے جانیں ہتھیلی پررکھ کر ملک سے فرار ہونے والوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ حال ہی میں یونان کی سمندری حدود میں غیرقانونی تارکین وطن کاجہاز ڈوبنے سے ایک سو سے زیادہ پاکستانیوں سمیت سینکڑوں افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔ اچھے مستقبل کی تلاش میں ملک سے باہر جانا کوئی جرم نہیں۔ دیگر ممالک سے بھی لاکھوں شہری مختلف ملکوں میں محنت مزدوری کر رہے ہیں۔ لیکن ان کا تناسب پاکستان کے مقابلے میں کم ہے۔ سب سے زیادہ شرح افغانستان سے ملک چھوڑنے والوں کی ہے جو مجموعی آبادی کا ساڑھے بارہ فیصد ہے ان میں وہ افغان مہاجر بھی شامل ہیں جو 1979میں افغانستان پر سوویت یونین کی فوجی یلغار کے وقت پناہ کی تلاش میں پاکستان اور دیگر ملکوں کی طرف گئے تھے۔ان پناہ گزینوں کی تین پشتیں اب تک پاکستان میں رہ رہی ہیں۔پاکستان کے حکومتی حلقوں نے اپنے شہریوں کے بیرون ملک جانے کو ملکی معیشت کے لئے سود مند قرار دیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ لوگ بیرون ملک محنت مزدوری کرکے قیمتی زرمبادلہ پاکستان بھیجتے ہیں جس سے ہماری معیشت کا پہیہ چلتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے اپنے ملک کی معیشت کو سنبھالا دے رکھا ہے ۔ان میں دوبئی، سعودی عرب، شارجہ،برطانیہ، ہالینڈ ،امریکہ، فرانس، جرمنی ،سوئزر لینڈ، اٹلی ، ملائشیا، سنگاپور ،ہانگ کانگ اور چین میں کاروبار کرنے والے پاکستانیوں کی تعداد سینکڑوں میں ہوسکتی ہے۔بعض لوگ وہاں ملازمت کرکے پرکشش تنخواہیں لے رہے ہیں لیکن اکثریت ان لوگوں کی ہے جو جزوقتی کام کرتے ہیں اور روزانہ دو تین جگہ کام کرکے خود کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں اور نوے فیصد کمائی اپنے ملک بھیج رہے ہیں۔اگر اپنے ملک میں روزگار کے بہتر مواقع ہوں تو کوئی اپناملک چھوڑ کر باہر نہیں جائیگا۔ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں بیرون ملک خاص طور پرمشرق وسطی کے ممالک میں پاکستانیوں کو روزگار دلانے کے معاہدے ہوئے تھے۔اورسیز پاکستانیوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے الگ وزارت بھی قائم کی گئی تھی۔ اس حکومتی معاہدے کے تحت لاکھوں پاکستانیوں کو سعودی عرب، کویت، عراق، شارجہ، ابوظہبی، دوبئی اور دیگر ریاستوں میں روزگار ملا تھا۔ ملک کے اندر نوجوانوں کو مختلف ہنر سکھانے کےلئے ادارے قائم کئے گئے تھے جن سے تربیت حاصل کرکے نوجوان بیرون ملک باعزت روزگار حاصل کرسکتے تھے۔پاکستان میں کالجوں ،یونیورسٹیوں سے فارغ ہوکر نوجوان عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں۔مگرمناسب ہنر نہ ہونے کی وجہ سے انہیں روزگار ملنے میںمشکلات کا سامنا ہوتاہے۔ اگر حکومت ہنر سکھانے کے اداروں کے قیام پر توجہ دے اور نوجوانوں کو مفت ڈپلومہ اور ڈگری کورسز کروائے تو وہ نہ صرف بیرون ملک باعزت روزگار حاصل کرسکتے ہیں بلکہ ملک کے اندر رہ کر بھی اپنے خاندانوں کی کفالت کرنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔اس طرف توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے اور اس معاملے میں تاخیر کی گنجائش ہر گز نہیں کیونکہ یہ نئی نسل کے مستقبل کا معاملہ ہے۔