سی پیک : زیرغور سماجی و اقتصادی اثرات

چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کی دس سالہ تقریبات پر ’کامیابیوں کا شمار‘ کیا جا رہا ہے جو یقینا اہم ہیں۔ اِس سلسلے میں رواں ماہ اسلام آباد میں دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس بھی منعقد ہوئی جس ’سی پیک‘ کے سماجی و اقتصادی اثرات پر روشنی ڈالنے کے لئے مختلف شعبوں کے ماہرین اور تجزیہ کاروں نے گرانقدر خیالات کا اظہار کیا۔ بنیادی بات یہی ہے کہ ’بیلٹ اینڈ روڈ انشی ایٹو‘ اور اِسے عملی شکل پہنانے کی حکمت عملی ’سی پیک‘ کے ذریعے نہ صرف چین و پاکستان کے تعلقات میں مزید بہتری آئی ہے بلکہ اِس سے ایک ایسے وقت میں پاکستان کو معاشی سہارا بھی ملا ہے جبکہ اِس کے لئے جاری اخراجات میں توازن برقرار رکھنا مشکل ہو رہا تھا۔سی پیک (CPEC) اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (BRI) کی دہائی کے عنوان سے دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس‘ جس کا موضوع ”نظریئے سے حقیقت تک“ رکھا گیا تھا پاکستان کی وزارت منصوبہ بندی و ترقیاتی امور اور خصوصی اقدامات کے زیر اہتمام منعقد ہوئی۔ اسلام آباد میں منعقدہ اِس کانفرنس کے لئے عوامی جمہوریہ چین کے سفارت خانے کا تعاون بھی انتظامی امور میں شامل تھا جو پچیس جولائی کو اختتام پذیر ہوئی۔ کانفرنس کے اختتام پر اتفاق رائے پایا گیا کہ پاکستان کی خوشحالی کے لئے ’سی پیک‘ پر عمل درآمد جاری رکھنا ضروری ہے۔ کانفرنس کا بنیادی مقصد پالیسی سازوں‘ سکالرز‘ پریکٹیشنرز اور دیگر سٹیک ہولڈرز کو ’سی پیک‘ اور بالخصوص ’بی آر آئی‘ کے معاشی‘ سماجی‘ ماحولیاتی‘ جغرافیائی اور سیاسی اثرات جیسے پہلوو¿ں پر سوچ بچار کرنے اور اِن سے متعلق اظہار خیال کی دعوت دینا تھا جبکہ کانفرنس میں دنیا بھر سے اور بالخصوص چین سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں شرکا نے سی پیک کے دس سالہ جشن کے موقع پر حاصل و متوقع کامیابیوں پر روشنی ڈالی۔ مذکورہ کانفرنس میں ’سی پیک‘ کے سماجی و اقتصادی اثرات‘ اِس کے ذریعے صنعتوں کے قیام‘ علاقائی رابطوں میں اضافہ‘ چین سے ٹیکنالوجی کی پاکستان منتقلی‘ سیکورٹی کے شعبے میں تعاون‘ جغرافیائی و سیاسی مضمرات‘ سی پیک اور بی آر آئی کی تکمیلی کوششوں 
میں زیادہ ہم آہنگی اور عوام سے عوام کے درمیان رابطوں کے حوالے سے بات چیت کی گئی۔ برسرزمین حقیقت یہ ہے کہ ایک دہائی کے دوران‘ پاکستان اور چین نے مختلف شعبوں میں اپنے دیرینہ تعلقات کو مزید مضبوط بنایا ہے اور خود کو ”آہنی برادران (آئرن برادرز)“ کے طور پر ثابت کیا ہے۔ ’سی پیک‘ نے پاکستان کو توانائی کی سلامتی کے ساتھ شمال سے جنوب تک نقل و حرکت کے نیٹ ورک کو بہتر بنانے میں بھی مدد کی ہے اور اِس کے ذریعے بندرگاہوں‘ ہوائی اڈوں‘ شاہراو¿ں اور ریلوے سمیت لچکدار بنیادی ڈھانچے کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ مذکورہ پلیٹ فارم نے گزشتہ دہائی کے دوران چین اور پاکستان کے درمیان اقتصادی ترقی اور تعاون کو فروغ دینے میں ’سی پیک‘ کی کامیابیوں کا جائزہ لینے کا نادر موقع فراہم کیا اور اِس سلسلے میں تازہ ترین پیشرفت یہ ہے کہ 30 جولائی کو چین کا ایک اعلیٰ سطحی وفد تین روزہ سرکاری دورے پر پاکستان پہنچ گیا ہے جو ’سی پیک‘ کی دس سالہ تقریبات کا حصہ رہے گا۔ قابل ذکر ہے کہ اپریل دوہزار بائیس میں موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے سی پیک منصوبوں پر کام کی رفتار تیز ہوئی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے حکومتی ذمہ داریاں سنبھالنے کے پہلے دن ہی ’سی پیک‘ منصوبوں کو مکمل کرنے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا اور وزیر اعظم بننے کے فوراً بعد چین کا دورہ بھی کیا۔ سی پیک کثیر الجہتی ترقیاتی حکمت عملی ہے جس کے مختلف پہلوو¿ں کا جائزہ لینے کے لئے مذکورہ کانفرنس (اجلاس) میں کئی ایسی نشستیں بھی 
ہوئیں جن میں تکنیکی پہلوو¿ں کا جائزہ لیا گیا اور ’سی پیک‘ کے سماجی و اقتصادی اثرات‘ گوادر پورٹ کے ذریعے علاقائی رابطے کے امکانات‘ صنعتی ترقی اور برآمدات کے فروغ جیسے موضوعات شامل تھے۔ گرین ٹیکنالوجیز اور ترقی سلامتی اور جغرافیائی سیاسی مضمرات‘ جدت طرازی‘ ٹیکنالوجیکل ایڈوانسمینٹ اور گلوبل ویلیو چینز‘ علاقائی رابطے اور انضمام‘ مصنوعی ذہانت اور ملازمتی مواقعوں میں اضافہ ’سی پیک‘ کو درپیش چیلنجز اُور اِس کے مختلف پہلوو¿ں کا احاطہ کئے ہوئے ہیں۔ مذکورہ کانفرنس میں پیش کردہ مقالہ جات میں معروف ماہرین نے وسیع تحقیقی و پینل مباحثوں میں اُن پہلوو¿ں پر بھی کھل کر بات چیت کی‘ جن کی وجہ سے سی پیک کو چیلنجز درپیش ہیں اور ایک جامع و قابل اِحترام ماحول کے فروغ کے لئے مستقبل میں سرمایہ کاری کی راہ ہموار ہو گی۔ قابل ذکر ہے کہ کانفرنس میں چار سو پینتیس قومی و بین الاقوامی ماہرین نے شرکت کی اور اِس موقع پر طلب کر مقالہ جات کے تحت پچاسی تحقیقی مقالہ جات موصول ہوئے جن میں سے باسٹھ مصنفین کو ’سی پیک کانفرنس‘ میں اظہار خیال کے مدعو کیا گیا تھا۔ وزارت منصوبہ بندی نے اسلام آباد میں چینی سفارتخانے اور ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان سمیت شریک سپانسرز کی خدمات کو سراہا اور کانفرنس کے انعقاد کو ممکن بنانے کے لئے تکنیکی و تنظیمی اور آرگنائزنگ کمیٹیوں کی کاوشوں کو سراہا۔حقیقت تو یہ ہے کہ سی پیک ایک گیمر چینجر منصوبہ ہے جس سے خاطر خواہ فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب اس پر کام کی رفتار تیز ہو۔ سی پیک منصوبے میں تیزی لانے اور منصوبوں کی بروقت تکمیل کے حوالے سے جو یقین دہانیاں سامنے آئی ہیں وہ خوش آئند ہیں اور وہ وقت دور نہیں جب سی پیک کی تکمیل کے ذریعے پاکستان کے خوابوں کی تعبیر سامنے آئے گی۔اس ضمن میں امریکہ اور اسکے اتحادی ممالک کی کوشش ہوگی کہ کسی طرح پاکستان کو دباﺅ میں لایا جائے تاہم وزیر اعظم کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ چین کے ساتھ پاکستان کے قریبی تعلقات میں رکاوٹ ہر گزقبول نہیں کی جائے گی۔