گزشتہ ایک سال کے دوران خیبر پختونخوا کے دس بڑے سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں صحت انصاف کارڈ کے تحت مریضوں کے مفت علاج پر ہونے والے اخراجات کی تفصیل سامنے آگئی ۔ صحت کارڈ کے ذریعے سب سے زیادہ صوبے کے سب سے بڑے طبی مرکز لیڈی ریڈنگ ہسپتال کی خدمات سے فائدہ اٹھایا گیا۔ایل آر ایچ کو دو ارب 33 کروڑ 40 لاکھ کی آمدنی ہوئی۔ دوسرے نمبر پر پشاور انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کو صحت کارڈ علاج کے ذریعے دو ارب 70لاکھ روپے کا فائدہ ہوا۔ حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کو تقریبا ڈیڑھ ارب کی آمدنی ہوئی۔نجی ہسپتالوں میں ایم ایم سی نے سب سے زیادہ 94 کروڑ 30 لاکھ، پمز نے 93 کروڑ 90 لاکھ، ارنم نے 90 کروڑ 40 لاکھ، فوجی فاﺅنڈیشن نے 81 کروڑ 10 لاکھ، پاک میڈیکل نے 67 کروڑ 80 لاکھ، کویت ہسپتال نے 61 کروڑ 50 لاکھ اور آر ایم آئی کے پاس 47 کروڑ 90 لاکھ روپے صحت کارڈ کے ذریعے علاج کی مد میں آئے۔ا س طرح جن ہسپتالوںنے صحت کارڈ پر علاج کے حوالے سے تعاون کیا ہے وہ قابل ستائش ہے اوراس تعاون کاان کوفائدہ بھی ہوا ہے ۔سرکار کے زیر انتظام چلنے والے ایم ٹی آئی ہسپتالوں کو صحت کارڈ سے ہونے والی آمدنی سے اپنی طبی سہولیات مزید بہتر بنانے میں مدد ملے گی اسی طرح نجی ہسپتالوں کو بھی اضافی آمدنی کے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی تشخیص اور علاج کا معیار بہتر بنانے اور مریضوں کو زیادہ سے زیادہ ریلیف فراہم کرنے کے لئے اقدامات کر نے کا موقع ملا ہے۔صحت کارڈ پر مفت علاج حکومت کا انقلابی منصوبہ ہے، ایسی صورتحال میں جب ایک غریب خاندان کو دس لاکھ تک مفت علاج کی سہولت ملتی ہے تو یہ ایک نعمت سے کم نہیں۔مفت علاج میں امراض قلب، گردوں کی بیماری، جگر کی پیوند کاری اور پیچیدہ آپریشنز بھی شامل ہیں۔ مفت علاج کے اس پروگرام میں کچھ بے قاعدگیوں کی بھی نشاندہی ہوئی ہے۔اگر ان پر قابو پایا جائے تو کروڑوں کی بچت ہوسکتی ہے جو غریبوں کے علاج پر خرچ کی جاسکتی ہے‘ انسانی جانوں کو بچانا شعبہ طب کا ایک مقدس فریضہ ہے۔مفت علاج پر خرچ ہونے والی رقم عوام کے ٹیکسوں سے ادا کی جاتی ہے۔ اس کی ایک ایک پائی قوم کی امانت ہے‘جس میں کسی بھی نام سے خیانت نہ صرف ناقابل قبول بلکہ ناقابل برداشت ہے‘ مفت علاج پروگرام کے حوالے سے ضروری ہے کہ قوم کی اس امانت کو نہایت دیانتداری اور احتیاط کے ساتھ عوامی بہبود پر ہی خرچ کیا جاسکے۔محکمہ صحت اور ہیلتھ کیئر کمیشن کو بھی اس بات کا جائزہ لینا ہوگا کہ صحت کارڈ سے سرکاری اور نجی ہسپتالوں کو جواضافی آمدنی حاصل ہوئی ہے اسے ہسپتالوں کی حالت بہتر بنانے، مریضوں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات میسر کرنے، بیماریوں پر تحقیق، ان کے سد باب اور صحت کا معیار بہتر بنانے پرخرچ کیاجا ئے ۔