دنیا کی واحد مستقل چیز ’تبدیلی‘ ہے۔ برطانوی مفکر ’لوئس گراسک گبن (پیدائش 1901ءوفات 1935ئ) کی تحریر کردہ تین جلدوں پر مشتمل کتاب ’اے اسکاٹس کوئر‘ میں چار ہزار سال پرانے پتھروں کو بادلوں کے سامنے کھڑے دکھایا گیا ہے۔ ایک منظر میں مرکزی کردار کرس گوتھری کو وقت اور تبدیلی کی نوعیت کے بارے میں سوچتے ہوئے دکھایا گیا ہے کہ ایک وقت تھا جب بادلوں کو مافوق الفطرت مخلوق سمجھاجاتا تھا لیکن اب وہ صرف بادل ہیں جو آتے ہیں اور جاتے ہیں یا پھر غائب ہوجاتے ہیں اور ان کی کہانی ہوا میں تحلیل ہونے کے بعد ختم ہوجاتی ہے جس کے بعد فطرت اور ابدی پہاڑیوں کے علاو¿ہ کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔ گبن خود سوشلسٹ فلسفی کی حیثیت سے یہ جانتے تھے کہ ابدی پہاڑیاں بھی باقی نہیں رہیں گی کیونکہ دنیا میں کچھ بھی مستقل نہیں اور اگر کچھ مستقل ہے تو وہ تبدیلی ہے۔ پہاڑ‘ جزیرے‘ سمندر‘ پودے اور نظام شمسی وجود میں آتے ہیں‘ تبدیلیوں سے گزرتے ہیں اور بالآخر غائب ہوجاتے ہیں۔ فطرت میں ہونے والی تبدیلیوں کی پیمائش ایک دو نہیں بلکہ ہزاروں برس میں کی جاتی ہے جبکہ انسانی معاشرہ اِس دوران خطرناک رفتار سے بڑھ رہا ہوتا ہے۔ پھر بھی ہم لوگوں کو یہ کہتے سنتے ہیں کہ چیزیں ہمیشہ سے اِسی طرح رہی ہیں اور چیزوں کو تبدیل کرنے کی کوشش کرنا بیکار ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری یاداشت اور ہماری عمر دونوں ہی مختصر ہیں۔ ہمیں اکثر کسی بھی صورتحال کی بڑی تصویر دیکھنے میں پریشانی ہوتی ہے۔ انسانی تاریخ کے تمام ادوار میں ایسے لوگ ملتے ہیں جو حال سے زیادہ ماضی کی یادگاریں لگتے ہیں۔ دولت مند اور طاقتور لوگ‘ ایسے لوگ جو تبدیلی سے ڈرتے ہیں اور ترقی کی مخالفت کرتے ہیں‘ ایسے لوگ جو ناسازگار حالات کا سامنا کرتے ہوئے جذباتی ضبط کھو دیتے ہیں۔ پھر ایسے الگ قسم کے لوگ بھی ملتے ہیں جو تبدیلی کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ وہ ماضی یا حال میں رہنے کی بجائے مستقبل میں رہتے ہیں۔ وہ جوں کے توں حالات (اسٹیٹس کو) چیلنج کرتے ہیں اور قوانین توڑنے میں بڑی حد تک کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔ پولینڈ سے تعلق رکھنے والا نکولس کوپرنیکس ماہر فلکیات تھا جس نے ’ہیلیو سینٹرک نظام‘ دریافت کیا تھا یعنی اُس نے کہا کہ دنیا زمین کے گرد نہیں بلکہ سورج کے گرد چکر لگا رہی ہیں۔ اِسی طرح نپولین نے جنگ اور تنازعات کے اصولوں کو ازسر نو مرتب کیا۔ فنون لطیفہ (آرٹس) کے شعبے میں پکاسو‘ حیاتیات میں ڈارون اور فزکس میں نیوٹن نے کئی ایک اصولوں کو نئی شکل میں دی۔ شیکسپیئر نے ادب کے ساتھ اخلاقیات کے نئے اصول بھی متعارف کروائے۔ جرمن فلسفی آرتھر شوپن ہاور نے کہا تھا کہ ”دنیا کی ہر سچائی درجہ بہ درجہ ہوتی ہے اور تمام تر سچائی تین مراحل سے گزرتی ہے۔ پہلے اُس سچائی کا مذاق اُڑایا جاتا ہے‘ پھر اُس سچائی کی مخالفت کی جاتی ہے اور آخر میں اُس سچائی کو قبول کر لیا جاتا ہے۔ سابق امریکی صدر ابراہم لنکن اپنے بچپن کا ایک واقعہ اکثر یاد کرتے تھے کہ ایک دن اُن کے والد کا دوست ان کے گھر آیا۔ لنکن کی عمر اُس وقت چھ سال تھی اور وہ گھر کے صحن میں کھیل رہے تھے۔ دوست نے پوچھا ”بیٹا جب تم بڑے ہو جاو¿ گے تو کیا ہو گے؟“ لنکن نے جواب دیا ”میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا صدر بنوں گا۔“ وہ لنکن کا جواب سن کر بہت ہنسا اور کہا کہ ”اِس کام کے لئے بہت محنت اور جدوجہد کی ضرورت ہے۔“ لنکن نے جواب دیا ”انکل‘ آدھا کام تو سمجھیں کہ ہو چکا ہے اور آدھا کام ہونا باقی ہے۔“ جب اُن کے والد کے دوست نے حیرت و تجسس کے ملے جلے رجحان میں تفصیل پوچھی تو لنکن نے کہا کہ ”وہ صدر بننے کے لئے راضی ہیں اس لئے آدھا کام مکمل ہو چکا ہے۔ دوسرا نصف کام امریکی عوام کو کرنا ہے۔ اِن چند منتخب ”فطری کہانیوں“ کا لب لباب یہ ہے کہ تبدیلی دنیا میں رونما ہونے والی واحد مستقل تبدیلی ہے۔ آج کی دنیا ’بدلی ہوئی دنیا‘ ہے۔ اِس میں ممالک کے ممالک پر اور قوموں کے قوموں پر اثرات زیادہ نمایاں اور زیادہ تیزرفتاری سے ظاہر ہو رہے ہیں اور وہی ممالک اور قومیں کامیاب ہیں جو تبدیلی کا راستہ روکنے کی بجائے تبدیلی کو راستہ دینے پر اتفاق کرتی ہیں اور تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ ایسی ہی قوموں نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا ہے۔