پشاور میں تعینات جمہوری اِسلامی ایران کے قونصل جنرل ’علی بنفشہ خواہ‘ نے دوطرفہ تجارتی‘ کاروباری‘ صحافتی‘ علمی ادبی اور عوام سے عوام کے روابط بڑھانے کے لئے جاری کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”دہشت گردی سے متاثرہ خیبرپختونخوا کے نوجوانوں کے لئے خصوصی تجارتی مواقع تخلیق کئے جائیں گے۔“ اُنہوں نے ’چین پاکستان اِقتصادی راہداری (سی پیک)‘ منصوبے میں ایران کی شمولیت سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ”سی پیک پاکستان کے لئے مخصوص منصوبہ ہے اور اِیران ’بیلٹ اِینڈ اِنشی ایٹو (BRI)‘ کا حصہ بننے کا خواہشمند ہے اور خطے کی تجارت و سلامتی کے لئے کسی بھی کوشش کی حمایت کرتا ہے۔“ قونصل جنرل نے پریس کلب کے صدر‘ کابینہ اور اراکین سے ملاقات بھی کی اور کلب کے مختلف حصوں کا دورہ کیا۔ اُنہوں نے صحافیوں کی بہبود سے متعلق پریس کلب کے کردار کو سراہا اور ہر ممکنہ تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ایران اور پاکستان تعلقات ہمسائیگی کے علاوہ ’رشتہ داری‘ بھی ہے جس کی ’مشترک تاریخی و ثقافتی اقدار‘ میں فارسی زبان کا بڑا عمل دخل ہے اور جیسے جیسے پاکستان کے تدریسی نصاب سے فارسی زبان کم ہوتے ہوتے خارج کر دی گئی اُس کے ساتھ ہی ایران کے ساتھ تعلقات میں بھی پہلے جیسی گرمجوشی نہیں رہی۔ آج ’ایران شناسی‘ ایک فراموش عنوان ہے اور اِس جانب جب قونصل جنرل کی توجہ مرکوز کی گئی کہ مختلف ممالک کے تعلیمی نظام اور ادارے پاکستان میں فعال ہیں لیکن ایران کے سکول نہیں تو اِس کمی کو دور کئے بغیر دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری نہیں آ سکتی انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ایرانی سکول نہ ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں ایرانیوں کی آبادی کم ہے لیکن مسئلہ ایرانی باشندوں کا نہیں بلکہ ایران کے کم ہوتے اثرورسوخ کا ہے جسے بڑھانے کے لئے جامعہ پشاور میں شعبہ¿ فارسی ثابت قدمی سے مالی و تکنیکی تعاون کر رہا ہے لیکن اِس مقصد کو آگے بڑھانے والوں کی خدمات کا خاطرخواہ اعتراف نہیں کیا گیا جو الگ موضوع ہے۔ خانہ فرہنگ میں فارسی زبان کے تدرسی مواقع فراہم کئے جاتے ہیں لیکن اِس منفرد سہولت کی مناسب تشہیر نہ ہونے اور ذرائع ابلاغ سے دوری (فاصلوں) کی وجہ سے قربت کا احساس نہیں بڑھ رہا‘ جو صرف زبان و ابلاغ کے ذریعے ممکن ہے۔ فارسی زبان سے دوری کی وجہ سے اُردو زبان بھی تنہائی محسوس کر رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اُردو زبان میں انگریزی زبان کے الفاظ کا استعمال بڑھ گیا ہے بالخصوص سوشل میڈیا کے استعمال نے اُردو زبان کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ توجہ طلب ہے کہ اُردو صرف زبان ہی نہیں بلکہ قومی تشخص ہے اور فارسی سے دوری کے باعث فارسی کا نہیں بلکہ صرف اور صرف اُردو کا نقصان ہوا ہے۔ لفظ ”قوم“ لاطینی لفظ ’ناٹیو‘ سے ماخوذ ہے جس کا مطلب پیدائش‘ لوگ (نسلی شناخت)‘ ذات یا طبقے ہوتے ہیں۔ ایک قوم کی ثقافتی‘ معاشرتی‘ تاریخی اور سیاسی شناخت چند خصوصیت کا مجموعہ ہوتی ہے۔ اِس لحاظ سے‘ کسی ”قوم کے اِحساس“ کی تعریف اِس گروہ کی رائے کے طور پر کی جاسکتی ہے جو ثقافتی اعتبار سے شناخت رکھتے ہیں۔ باالفاظ ِدیگر قوم کسی ریاست‘ علاقے‘ ملک یا وہاں موجود باشندوں کی طرف اشارہ ہوتی ہے یعنی قوم اس بات کا ثبوت ہے کہ کسی جگہ رہنے والے تاریخ اور کس تہذیب و ثقافت کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں۔ فارسی زبان کی ضرب المثل ہے کہ .... ”ہَر کَمَالِے رَا زَوَالِے‘ ہَر زَوَالِے رَا کَمَال“ .... (ترجمہ) ہر عروج کو زوال اور ہر زوال کو عروج ہوتا ہے۔ اسی فلسفے کے تحت قوموں اور تہذیبوں کا عروج و زوال بھی فطری عمل ہے جس میں ہر دور کے اعتبار سے کئی اسباب و عوامل کار فرما ہوتے ہیں اور اُس میں بنیادی زبان سے لاتعلقی کلیدی محرک ہے۔ فارسی الگ نہیں بلکہ اُردو کی بنیاد ہے اور اِس بنیاد کو مضبوط بنانے کے لئے سطحی اور روایتی نہیں بلکہ کثیر الجہتی اقدامات کی ضرورت ہے۔ جہاں تک ہمارے نوجوانوں کی زبان شناسی اور ایران شناسی کی بات ہے تو اِس مقصد کے لئے سوشل میڈیا اور روایتی ذرائع ابلاغ کا ہر ممکنہ طور پر زیادہ سے زیادہ استعمال ہونا چاہئے۔ وقت ہے کہ سستی و غفلت پر مبنی تجاہل عارفانہ ترک کیا جائے ۔پاکستان اور ایران کے درمیان قریبی تعلقات سے اس وقت جتنا فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے ماضی میں ایسے مواقع بہت کم تھے۔ ایران اور پاکستان دونوں کے پاس قدرتی وسائل کی فراوانی ہے اوران قدرتی وسائل سے اگر مربوط اور منظم انداز میں مل کر فائدہ اٹھایا جائے یعنی جس چیز کی پاکستان کو ضرورت ہے وہ پاکستان کو ایران سے سستی ملے اور ایران کو اپنے مطلب کی اشیاءپاکستان سے سہولت کے ساتھ ملیں تو یہ دونوں ممالک کی تعمیر و ترقی میں ایک اہم مرحلہ ثابت ہوسکتا ہے۔ ایران تیل سے مالا مال ملک اور ایرانی تیل پاکستان آتا بھی ہے تاہم یہ زیادہ تر غیر قانونی طور پر بلوچستان میں مشکل ترین راستوں سے پہنچتا ہے ۔ اگر ایران اور پاکستان کے درمیان تیل کی تجارت کو قانونی بنایا جائے تو اس سے دونوں ممالک کو خاطر خواہ فائدہ ہوگا۔ بجلی بھی ایران میںفراوانی کے ساتھ موجود ہے اور بلوچستان میںبہت سے ایسے علاقے ہیںجہاں تک ایران سے آسانی کے ساتھ بجلی کی ٹرانسمشن لائنیں پہنچائی جا سکتی ہیں،جبکہ اس کے مقابلے میں ان دشوار گزار علاقوںتک بجلی پہنچانا مشکل ہے ۔اس طرح اور بہت سارے ایسے شعبے ہیں جن میں پاکستان اور ایران کی شراکت نہ صرف ان دونوں ممالک کیلئے بہترین نتائج کی حامل ہوگی بلکہ پورے خطے کیلئے اہم ثابت ہوگی۔