جب آپ آئی ایم ایف ،ورلڈ بینک اور اسی طرح کے دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے چنگل میں پھنستے ہیں تو پھر ملک کی سیاست بھی انہی اداروں کی مرضی کے تابع فرمان ہوکررہ جاتی ہے حکومت ان اداروں کے مثبت اعشاریوں کو اپنے حق میں دلائل کے طورپر پیش کرتی ہیں جبکہ اپوزیشن جماعتیں انہی اداروں کے منفی اعشاریوں کو حکومتی ناکامیوں سے جوڑتی ہیںمگر بیچ میں کئی حقائق نظر اندازہوجاتے ہیں جس کی بھاری قیمت عام لوگوں کوا دا کرناپڑتی ہے مثال کے طورپر وہ ورلڈ بینک ہو یا ایسا ہی کوئی دوسرا عالمی مالیاتی ادارہ، ان کی جانب سے جو ”مشورہ نما فرمان“ جاری ہوتے ہیں ا±ن میں ایک ہی بات کہی جاتی ہے: غریبی کم کیجئے، غریبی ختم کیجئے۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ معاشرہ میں پائی جانے والی نابرابری یا عدم مساوات کم کیجئے یا ختم کیجئے۔ ان اداروں کا مطمح نظر یہ ہے کہ متاثرہ یا متعلقہ طبقات کو خط افلاس کے نیچے سے اوپر لائیے اور اس بات کی فکر مت کیجئے کہ آمدنی کی عدم مساوات بڑھ رہی ہے۔ہمیں اس پر اعتراض نہیں ہے کہ غربت کے خاتمے کی کوشش ہونی چاہئے مگر یہ اعتراض تو بہرحال رہے گا کہ آمدنی کی عدم مساوات پر گفتگو کئے بغیر غربت کے خاتمہ پر کیسے چھلانگ لگا سکتے ہیں؟ کیا آمدنی کی نابرابری براہ راست غربت میں اضافے کا سبب نہیں بنتی؟ اس سلسلے میں ایک سادا اور بہت سادا سی مثال یہ ہے: ایک ایسے معاشرہ کا تصور کیجئے جس میں خط افلاس کے آس پاس زندگی گزارنے والوں کی آمدنی ڈھائی ہزار روپے ماہانہ ہے۔ اگر کوئی شخص ڈھائی ہزارسے کم کماتا ہے تو ہم ا±سے خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والا مانیں گے یعنی ا±سے غریب تسلیم کرینگے۔اب اگر یہ فرض کریں کہ جو لوگ خط افلاس سے نیچے زندگی گزارتے ہیں یعنی جو غریب ہیں اگر ا±ن کی آمدنی میں پانچ فیصد کا اضافہ ہوتا ہے اور جو لوگ اس خط سے اوپر ہیں ا±ن کی آمدنی بیس فیصد بڑھتی ہے تو اس کا واضح مطلب ہوگا کہ جو لوگ خط افلاس سے اوپر ہیں ا±ن کی آمدنی میں جتنا اضافہ ہوا ہے ا±س کا عشر عشیر بھی خط افلاس سے نیچے والوں کی آمدنی میں نہیں بڑھا۔ یہی ایک فرق نہیں ہے، ایک اور فرق کو محسوس کیجئے کہ پانچ فیصد اضافے سے کچھ لوگ خط افلاس کے اوپر آجائیںگے اور غریب نہیں کہلائیںگے جبکہ وہ اتنے اوپر نہیں آئے ہونگے کہ ا±ن کی مالی حالت کو بہتر مان لیا جائے۔ کیا خط افلاس سے تھوڑا اوپر آجانے کا مطلب یہ ہے کہ ا±ن کا شمار غریبوں میں نہیں ہوگا؟ تو کیا وہ ا±ن لوگوں میں شمار ہونے کے قابل ہوگئے جو غریب نہیں ہیں؟ اس کے باوجود مذکورہ مالیاتی ادارے اس بات کا خیرمقدم کریں گے کہ پانچ فیصد اضافے کے سبب بہت سے لوگ غربت کے دائرہ سے باہر نکل آئے۔ یہ ادارے اسے غربت میں کمی قرار دیں گے۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ مکمل کہانی نہیں ہے۔ اس کے کئی اور پہلو ہیں۔ فرض کرلیجئے کہ خط افلاس کے نیچے اور اس کے اوپر شمار ہونے والا ہر خاندان اپنے بچوں کو سرکاری اسکول بھیجتا ہے تو جن کی آمدنی میںبیس فیصد اضافہ ہوا ہے وہ اب اپنے بچوں کو اعلیٰ معیاری نجی اسکول میں بھیجیں گے جس کی وجہ سے ایک عرصہ کے بعد نجی اسکولوں کی تعداد بڑھے گی جنہیں اپنا معیار برقرار رکھنے کیلئے اچھے اساتذہ کا تقرر کرنا پڑے گا اور بہت ممکن ہے کہ اچھے اساتذہ اچھی تنخواہوں کی پیشکش کے ذریعہ سرکاری اسکولوں سے بلائے جائیں! کیا ایسا نہیں ہوسکتا؟ یہ ایک منظرنامہ ہے۔ دوسرا منظرنامہ بھی دیکھئے کہ جن لوگوں کی آمدنی میں محض پانچ فیصد کا اضافہ ہوا، ا±ن کے سامنے دو متبادل ہوں گے۔ پہلا یہ کہ وہ اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں ہی میں بھیجتے رہیں جہاں کا معیارِ تعلیم بہتر نہیں ہے یا آمدنی میں معمولی اضافے کے پیش نظر ا±نہیں نجی اداروں میں بھیجنے کی ہمت کریں۔ اِس صورت میں ا±نہیں آمدنی کے معمولی اضافے سے زیادہ خرچ کرنا پڑیگا۔ اس خرچ کیلئے وہ اپنے گھریلو اخراجات کو کم کرینگے اور ممکن ہے کہ کھانے پینے کی اشیاء میں سمجھوتہ کریں۔وہ جس کسی متبادل کا انتخاب کریں، آمدنی میں اضافہ کی وجہ سے ا±ن کی زندگی میں جو تبدیلی آنی چاہئے تھی وہ نہیں آئے گی بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ محض پانچ فیصد کے اضافے کے پیش نظر وہ اپنے بچوں کو نجی اداروں میں بھیج کر زیادہ تعلیمی اخراجات برداشت کریں اور ایک بار پھر خط افلاس سے نیچے آجائیں ورلڈ بینک اور غربت کا جائزہ لینے والے بہت سے محققین خط افلاس سے ذرا اوپر آجانے والوں کی حقیقی حالت کا تجزیہ نہیں کرتے بلکہ محض اس لئے کہ ا±ن کے بچے نجی اسکولوں میں پڑھنے لگے ہیں ا±نہیں غریب شمار نہیں کرتے۔ وہ اسے اگر خوشحالی نہیں تو بہتری قرار دیتے ہیں یہ صرف معاشی حالت کا معاملہ نہیں ہے بلکہ صحت کے معاملے میں بھی کچھ ایسی ہی دشواریاں ہیں۔ بہتر آمدنی والے خاندانوں کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے تو وہ صحت کے معائنے اور علاج معالجہ کیلئے بہتر اسپتالوں اور ڈاکٹروں کا ر±خ کرتے ہیں کیونکہ اب ا±ن میں اتنی تاب نہیں ہوتی کہ سرکاری اسپتالوں کی لمبی قطار میں کھڑے رہیں۔ جب زیادہ سے زیادہ لوگ نجی اسپتالوں کو ترجیح دیتے ہیں تو صحت کے ایسے مراکز مریضوں کو دی جانے والی سہولتوں کو بہتر اور اعلیٰ معیاری بناتے ہیں جس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ اچھے ڈاکٹر سرکاری اسپتال چھوڑ کر ان نجی اسپتالوں میں اپنی خدمات پیش کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کی وجہ سے سرکاری اسپتالوں کی کارکردگی ناقص ہونے لگتی ہیں چنانچہ جن کی آمدنی میں نسبتاً کم اضافہ ہوا ہے وہ بھی نجی اسپتالوں کا ر±خ کرنے لگتے ہیں۔ اب چونکہ علاج معالجہ پر ا±نہیں پہلے سے زیادہ خرچ کرنا ہوگا اس لئے وہ اپنے ذاتی اخراجات سے سمجھوتہ کریں گے، ممکن ہے اعلیٰ معیاری غذاﺅں کو چھوڑ دیں یا غذا کے تنوع کو کم کردیں۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جس کی آمدنی میں زیادہ اضافہ ہوا ا±س نے تو صحت کی بہتر سہولتیں حاصل کرلیں مگر جس کی آمدنی میں کم اضافہ ہوا وہ صحت پر زیادہ خرچ کی وجہ سے پہلے سے زیادہ تنگ دست ہوگیا۔ کہنے کامطب و مقصد یہ ہے کہ آمدنی کی نابرابری عموماً نظر انداز کردی جاتی ہے اور اسے غربت سے جوڑ کر نہیں دیکھا جاتا جبکہ اسے جوڑ کر دیکھنا ازحد ضروری ہے، جو اوپر دی گئی مثالوں کے ذریعہ سمجھایا گیا ہے۔ اسی لئے ضروری ہے کہ غربت اور آمدنی کی نابرابری کو ایک ساتھ، ایک دوسرے سے جوڑ کر دیکھا جائے، محض غربت کے اعداووشمار کو سامنے رکھ کر یہ فیصلہ کرنا ٹھیک نہیں ہے کہ غربت کم ہوئی یا زیادہ ہوئی، اسے آمدنی کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جائے تو حقیقت عیاں ہوگی کہ غربت فی الواقعی کم ہوئی یا نہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اس معاملہ کو سیاست کے ساتھ جوڑنے سے بھی گریز کیاجاناچاہئے تبھی بہتری کی کوئی صورت نکل سکتی ہے ۔