کسی بھی جنس کی نقل و حمل پر عائد پابندی یا اُسے خفیہ طور پر ذخیرہ کرنے اور اِس حوالے سے حکومتی و اخلاقی قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی یا حکومت کی مقرر کردہ قیمت سے زائد دام طلب کرنا ”بلیک مارکیٹنگ“ کہلاتا ہے جو قانوناً قابل سزا جرم ہے لیکن یہ جرم ملاوٹ کی طرح اِس حد تک پھیلا ہوا ہے کہ ایک تو متعلقہ حکومتی و قانون نافذ کرنے والے ادارے اِس جرم میں ملوث سیاسی و مالی طور پر بااثر کرداروں کے خلاف قرار واقعی کاروائی کرنے میں بے بس دکھائی دیتے ہیں اور صورتحال کا دوسرا پہلو یہ ہے ’بلیک مارکیٹنگ‘ کا تعلق چونکہ ایک عام آدمی (ہم عوام) سے ہے اِس لئے بھی زیادہ سنجیدگی سے حکومتی اداروں کی صورت قانون حرکت میں نہیں آتا۔ اِس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے خبر یہ ہے کہ تھوک (ہول سیل) مارکیٹ میں چینی کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافہ ہوا ہے اور پاکستان کی اپنی زرعی پیداوار گنے (شوگر کین) اور اپنی صنعتوں (شوگر ملوں) میں تیار ہونے والی چینی کی خوردہ قیمت پہلے ڈیڑھ سو اور اب ایک سو پینسٹھ روپے فی کلوگرام تک جا پہنچی ہے۔ چینی کی قیمت میں اِس اضافے کا ’درپردہ محرکات‘ میں ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ شامل ہیں جن پر نظر رکھنے میں ناکامی کی وجہ سے ہم عوام لٹ رہے ہیں اور ناجائز منافع خور فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ توجہ طلب ہے کہ چینی کی قیمت ’آن لائن‘ فروخت کنندگان نے بھی بڑھا دی ہے جہاں مارکیٹ کے مقابلے اگرچہ پانچ روپے فی کلوگرام کم مل رہی ہے لیکن آن لائن خریداری میں گھر تک اجناس پہنچانے کا خرچ اِس پانچ روپے فی کلوگرام بچت سے کہیں گنا زیادہ آتا ہے۔ پشاور کی تین مارکیٹیں (رام پورہ گیٹ‘ اشرف روڈ اُور پیپل منڈی) اجناس کے ہول سیلرز کا مرکز ہیں جہاں تاجر خود کو چینی کی بڑھتی ہوئی قیمت کے سامنے ’بے بس‘ قرار دیتے ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ پنجاب (بالخصوص لاہور شہر) کی منڈیوں سے اجناس کی قیمتیں طے ہوتی ہیں اور پشاور سمیت ملک کے کسی دوسرے شہر یا صوبے کا اجناس کی قیمتوں پر کنٹرول نہیں ہے۔ ذہن نشین رہے کہ گزشتہ ماہ کے دوران چینی کی ہول سیل قیمت میں اچانک آٹھ روپے فی کلوگرام اضافہ ہوا تھا یہ 143 روپے فی کلو تک جا پہنچی تھی جبکہ اِس سے قبل چینی کی قیمت 131 سے 132روپے فی کلوگرام تھی۔ ایک وقت تھا جب چینی کی قیمت میں ایک روپے یا اِسے کم اضافہ ہوتا تھا لیکن اب صورتحال مختلف ہے ‘توجہ طلب ہے کہ حکومت کی سرپرستی میں اور نجی طور پر ملک کے سبھی بڑے شہروں میں صارفین کی تنظیمیں موجود ہیں لیکن اُن کی سربراہی اور فیصلہ سازی ایسے بااثر افراد کو سونپ دی گئی ہے جو چینی بنانے یا اِس کی سوداگری کرنے والے خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں‘ ظاہر ہے کہ جہاں ’مفادات کا تصادم‘ ہووہاں عوام کے حق میں فیصلے نہیں ہوتے‘حکومت کی جانب سے اجناس کی قیمتوں پر نظر رکھنے کے مختلف پیمانے قائم ہیں اِن میں سے ایک سینسی ٹیو پرائس انڈیکیٹر (ایس پی آئی) کہلاتا ہے۔ ’ایس پی آئی‘ کے تحت مرتب کردہ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ہفتے اور اگست کے آغاز پر ملک میں یعنی قومی سطح پر چینی کی اوسط قیمت 135 سے 160روپے فی کلو گرام جیسی بلند سطح تک پہنچ گئی ہے یعنی خود حکومت بھی بے بسی سے اعتراف کر رہی ہے کہ چینی کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے یہ حکومتی اعدادوشمار اگرچہ مارکیٹ کی حقیقی تصویر کی عکاسی نہیں کرتے لیکن جولائی کے پہلے ہفتے میں ایک سو پچیس سے ایک سو چالیس روپے فی کلو چینی کی قیمت کیوں بڑھی اور اندرون ملک تیار ہونے والی جنس کی قیمت اچانک کیوں بڑھنے لگی اِس سوال کا جواب اجناس کی مارکیٹ میں سٹے بازی کو دیا جاتا ہے‘ جب تک اجناس میں ہونے والی اِس سٹے بازی پر قابو نہیں پایا جاتا جس میں شوگر ملیں بھی ملوث بیان کی جاتی ہیں اُس وقت تک چینی کی قیمت کو قرار نہیں آئے گا بلکہ اندیشہ یہ ہے کہ اِس کی قیمتوں میں اضافے کی شرح برقرار رہے گی اور چینی بنانے سے ہول سیل فروخت کرنے والوں تک کی آمدنی میں ریکارڈ اضافہ ہوتا رہے گا۔افسوسناک اور تشویشناک صورتحال یہ ہے کہ چینی کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمتوں سے نمٹنے کےلئے متعلقہ حکومتی اداروں کے پاس کوئی لائحہ عمل نہیں ہے اور اجناس کی مارکیٹ طاقت کاروباری افراد کے رحم و کرم پر ہے۔ دوسری طرف شوگر ملیں اگر چاہیں تو وہ چینی کی خریداری میں سٹے بازی اور اِس کی بلیک مارکیٹنگ پر قابو پا سکتی ہیں لیکن ایسا کرنے میں شوگر ملز مالکان خاطرخواہ سنجیدہ اقدامات نہیں کر رہے ‘ وہ بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہوئے من چاہی قیمتوں میں اضافہ کر رہے ہیں چونکہ اجناس کی منڈیوں کا کنٹرول پنجاب کے ہاتھ میں ہے اِس لئے جولائی کے آخری ہفتے میں پنجاب حکومت نے چند قابل ذکر اقدامات کئے جن میں بلیک مارکیٹنگ کرنے والوں کے خلاف کاروائیاں بھی شامل تھیں اور خبروں کے مطابق ذخیرہ کی گئی چینی کی بڑی مقدار ضبط کی گئی۔ اگر واقعی ایسا ہی ہوتا تو چینی کی قیمت میں اضافہ دیکھنے میں نہ آتا اور اِس حقیقت سے عیاں ہے کہ حکومت کو ایک منظم و مربوط سازش کے تحت گمراہ کیا جا رہا ہے اور ایسے غلط اعدادوشمار اور کارکردگی حکومت کے سامنے پیش کی جاتی ہے جس کا حقیقت سے تعلق نہیں ہوتا۔