جرمنی کو یورپ کی سب سے بڑی اقتصادی قوت بنانے والی خاتون چانسلر انجیلا مرکل سولہ سال تک اقتدار میں رہنے کے بعد جب سیاست سے کنارہ کش ہوئی تو سرکاری بنگلے سے اپنا سامان خود اٹھا کر چار کمروں کے فلیٹ میں منتقل ہوگئی۔ جب انجیلا مرکل سرکاری مکان سے جانے لگی تو انہیں الوداع کہنے کے لئے ہزاروں افراد ان کے گھر کے باہر جمع ہوئے تھے۔ انجیلا نے اپنے مکان کی بالکونی سے عوام سے خطاب کیا اور ان کی محبت پر ان کا شکریہ ادا کیا۔جب انجیلا مرکل اپنی بالکونی پر باہر آئی اور پورے جرمنی میں 6 منٹ تک کھڑے ہو کر لوگوں نے تالیاں بجائیں۔اقتدار کے 16 سالوں میں اینجلا مرکل نے اپنے کسی بھی رشتہ دار کو ریاستی عہدے پر تعینات نہیں کیا۔اس نے رئیل اسٹیٹ ، کاریں, پلاٹ اور نجی طیارے نہیں خریدے سولہ سال تک اس نے اپنی الماری کا انداز کبھی نہیں بدلا۔ایک پریس کانفرنس میں صحافی نے میرکل سے پوچھا کہ ہمیں احساس ہے کہ آپ نے وہی سوٹ پہنا ہوا ہے جو کئی سالوں سے آپ پہن رہی ہیں۔کیا آپ کے پاس دوسرا سوٹ نہیں ہے؟ انجیلا مرکل نے جواب دیا کہ میں سرکاری ملازم ہوں ماڈل نہیں کہ اپنا سوٹ بدلتی رہوں۔پھر دوسرے صحافی نے پوچھا کہ آپ کے گھر میں کپڑے دھونے کا کام کون کرتاہے مرکل کا جواب تھا کہ میں کپڑے ٹھیک کرتی ہوں اور میرا شوہر واشنگ مشین چلاتا ہے۔ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ کے پاس ایک گھریلو ملازمہ ہے جو آپ کے گھرکو صاف کرتی ہے کھانا تیار کرتی ہے ۔مرکل نے جواب دیا کہ میرے کوئی نوکر نہیں ہیں اور نہ ہی ان کی ضرورت ہے میں اور میرے شوہر معمول کے کام خود گھر پر کرتے ہیں. وہ 2005 میں جرمنی کی چانسلر منتخب ہونے سے پہلے جس اپارٹمنٹ میں رہتی تھیں اسے نہیں چھوڑا۔ نہ ہی اسے بدلنے کی ضرورت محسوس کی۔یورپ کی سب سے بڑی معیشت کی چانسلر انجیلا میرکل ہمیشہ اقدار،بے لوث اصولوں، حقائق اور ہمدردی سے چلنے والی قیادت کی مثال بنی رہی۔ایوان اقتدار سے نکل کر انہوں نے اپنی پرانی نوکری دوبارہ جوائن کرلی۔امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس، جاپان، ہالینڈ سمیت کسی بھی جمہوری ملک میں سیاست کو پیشہ نہیں سمجھا جاتا۔مارگریٹ تھیچر، گورڈن براﺅن،رونالڈ ریگن، بارک اوبامہ،جارج بش سینئر، بش جونیئر اور ڈونلڈ ٹرمپ جونہی ایوان اقتدار سے نکلے سیاست کو خیر باد کہہ دیا۔یہ بات طے ہے کہ سیاست کو قوم کی خدمت کا ذریعہ بنانے والوں کی لوگ دل سے عزت کرتے ہیں۔خواہ وہ ان انجیلا مرکل ہو، مارگریٹ تھیچر، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، طیب اردگان، مہاتیر محمد ہو یا پھر نیلسن منڈیلا یا ،وہ لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں۔