سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) نے چونکا دینے والے اعداد و شمار جاری کئے ہیں جن کے مطابق پاکستان میں رجسٹرڈ تین کروڑ گاڑیوں کا بیمہ نہیں کیا گیا اور گاڑیوں کی انشورنس کے معاملے میں پاکستان بھارت‘ سعودی عرب‘ بنگلہ دیش‘ سری لنکا اور یوگنڈا سے پیچھے ہے۔ یہ انکشافات ایس ای سی پی کی جانب سے رواں ہفتے کے اوائل میں ’سٹیٹس آف تھرڈ پارٹی موٹر انشورنس ان پاکستان‘ نامی رپورٹ کا حصہ ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ تین کروڑ رجسٹرڈ گاڑیوں میں سے 2 کروڑ 30 لاکھ موٹر سائیکلوں اور ستر لاکھ موٹر گاڑیاں ہیں۔ اِن ستر لاکھ میں سے 12 ہزار 557 گاڑیوں نے تھرڈ پارٹی انشورنس کروا رکھی جبکہ 9 لاکھ گاڑیوں کے پاس جامع موٹر انشورنس ہے۔ ایم ٹی پی اور جامع انشورنس کے درمیان بنیادی فرق یہ ہوتا ہے کہ مو¿خر الذکر میں گاڑی کے مالک کو پہنچنے والے نقصانات کا احاطہ بھی کیا جاتا ہے۔موٹر انشورنس دنیا بھر میں بیمہ کا بنیادی ذریعہ ہے لیکن اور اس کے ذریعے عالمی سطح پر پچاس فیصد گاڑیاں رجسٹرڈ ہوتی ہیں اور جن ممالک میں موٹرگاڑیوں کا استعمال زیادہ ہوتا ہے وہاں انشورنس کے دیگر فوائد بھی زیادہ حاصل ہوتے ہیں لیکن پاکستان کے معاملے میں صورتحال مایوس کن ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں موٹر انشورنس اتنی کم کیوں ہے؟ پاکستان میں موٹر رجسٹریشن کا مسئلہ دراصل کم معلومات کی وجہ سے ہے حالانکہ موٹررجسٹریشن ایک قانونی ضرورت بھی ہے لیکن گاڑیاں قرض پر حاصل کرنے والے ہی بہ امر مجبوری رجسٹریشن کرواتے ہیں۔ دنیا میں انشورنس سرٹیفکیٹ کے بغیر گاڑی چلانا جرم ہوتا ہے بالکل اُسی طرح جیسا کہ اگر کسی گاڑی کی رجسٹریشن نہ ہونا جرم ہے تو اُس کی انشورنس نہ ہونے کو بھی جرم سمجھا جاتا ہے اور اِس کے لئے مختلف جرمانے اور سزائیں مقرر ہیں لیکن پاکستان میں انشورنس کا نہ ہونا جرم نہیں ہے۔ ایک ایسا ملک جس میں بڑی تعداد میں غیر رجسٹرڈ اور غیر لائسنس یافتہ گاڑیاں موجود ہوں وہاں انشورنس کو بھلا کون پوچھتا ہے اور یہی سب سے بڑا چیلنج ہے جسے سے نمٹنے کے لئے سب سے پہلے ’آگاہی کا فقدان‘ ختم کرنا ہوگا۔ سب سے پہلے اور سب سے ضروری کام یہ ہے کہ عام لوگوں میں موٹر انشورنس کی اہمیت اور فوائد اُجاگر کرنے کے لئے آگاہی پیدا کی جائے۔ بہت سے افراد شاید یہ نہیں سمجھ سکتے ہیں کہ موٹر انشورنس ان کی گاڑیوں کو حادثات‘ چوری یا نقصان کی صورت میں مالی تحفظ فراہم کرتی ہے۔ انشورنس انڈسٹری کی پیچیدگی اور انشورنس کے حصول کا عمل لوگوں کو موٹر انشورنس کرنے سے روکے ہوئے ہے۔ کبھی کبھار پیچیدہ پالیسیوں‘ کوریج کے اختیارات اور اس میں شامل کاغذی کاروائیوں سے گزرنا پریشان کن اور وقت طلب ہوسکتا ہے۔ کیا یہ تمام خدشات قابل حل ہیں؟پاکستان میں کار انشورنس کا نفاذ بطور قانونی ذمہ داری ضروری ہےکیونکہ اِس کے نہ ہونے سے نقصان عام آدمی کا ہو رہا ہے اور معاشرے کے نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے زیادہ متاثر ہیں۔ اگر کار انشورنس کو فروغ دیا جائے تو اِس کے نتیجے میں متاثر ہونے والوں کے لئے قانونی چارہ جوئی میں بھی آسانی رہے گی۔ ذہن نشین رہے کہ کار انشورنس سے ٹریفک حادثات کے متاثرین کے حقوق کا تحفظ کرنا ہی نہیں ہوتا بلکہ اِس سے دیگر املاک کو پہنچنے والے نقصان کی بھی تلافی ممکن ہوتی ہے۔ پاکستان میں موٹر انشورنس کو بڑھانے کے لئے کثیر جہتی نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ کچھ اہم حکمت عملیوں میں جامع مہمات کے ذریعے موٹر انشورنس کے فوائد اور قانونی ذمہ داریوں کے بارے میں آگاہی بڑھانا شامل ہے۔ انشورنس کے طریقہ کار کو مزید قابل رسائی اور آسان بنانے کے لئے اِسے ہموار کرنا بھی اہم ہے۔ علاو¿ہ ازیں انشورنس کی مراعات کو مربوط کرنے کے لئے مالیاتی اداروں اور آٹوموٹو انڈسٹری کے ساتھ شراکت داری بھی مو¿ثر (کارگر) ثابت ہوسکتی ہے۔
کار انشورنس : آگاہی کا فقدان