حالیہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ مصنوعی ذہانت میں چھاتی کے کینسر کی تشخیص کے لیے استعمال ہونے کی صلاحیت موجود ہے جس سے دنیا بھر میں ریڈیولوجسٹ کی کمی سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔
یہ تحقیق سویڈن میں کی گئی اور اس کے نتائج لانسٹ آنکولوجی نامی جریدے میں شائع کیے گئے۔
تحقیق کرنے کے لیے سویڈن سے تعلق رکھنے والی 80 ہزار سے زائد خواتین کو شامل کیا گیا، جن کی عمریں 40 سے 80 کے درمیان تھی۔
مطالعے سے معلوم ہوا کہ دو ریڈیولوجسٹ کے معیاری اسکریننگ کے مقابلے مصنوعی ذہانت کی مدد سے کی جانی والی اسکریننگ میں چھاپی کے کینسر کے 20 فیصد زیادہ کینسر سامنے آئے۔
یعنی مجموعی طور پر مصنوعی ذہانت کی مدد سے اسکریننگ کے نتیجے میں 244 خواتین میں کینسر پایا گیا جبکہ معیاری سکریننگ سے 203 خواتین میں مرض کی تشخیص ہوئی۔
خیال رہے کہ یہ ابتدائی مرحلے کی تحقیق تھی، مصنفین کے مطابق یہ تحقیق ابھی جاری ہے، 2 سال بعد مزید ایک لاکھ خواتین کا مطالعہ کیا جائے گا۔
مصنوعی ذہانت کی مدد سے اسکریننگ کے نتائج کی تصدیق ریڈیولوجسٹ نے مریض کی پروفائل کے لحاظ سے کی تھی۔
محققین اس نتیجے میں پہنچے کے میموگرافی اسکریننگ میں مصنوعی ذہانت کا استعمال محفوظ طریقہ ہے جس سے قبل از وقت مریض میں سرطان کی تشخیص ہوسکتی ہے اور ریڈیولوجسٹ پر دباؤ کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔
لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ میموگرام کو مشین کے ذریعہ پڑھنے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے، انہوں نے کہا کہ اس بات کا مکمل تعین کرنے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ آیا اسے اسکریننگ پروگراموں میں استعمال کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر مصنوعی ذہانت اس بات کو یقینی بنائے کہ مریض میں قبل ازی وقت سرطان کی تشخیص ہوسکتی ہے تو اس بیماری سے ہونے والی اموات کو کم کیا جاسکتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے حالیہ تحقیق پر ردعمل دیتےہوئے کہا کہ چھاتی کا کینسر دنیا میں سب سے زیادہ عام ہے، مصنوعی ذہانت کی مدد سے اگر واقعی قبل از وقت تشخیص ہوسکتی ہے تو یہ ایک بہت بڑی جیت ہوگی۔
مصنوعی ذہانت کا تصاویر کے ذریعے چھاتی کے کینسر کی تشخیص مستقبل میں تجربہ کار ریڈیولوجسٹ کو پیچھے چھوڑ سکتا ہے، اے آئی چھاتی کے کینسر کی جلد تشخیص اور اسے بہتر بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
طبی تشخیص کو بہتر بنانے کے لیے مشین لرننگ کا استعمال کوئی نئی بات نہیں ہے، لیکن حالیہ برسوں میں مصنوعی ذہانت میں ترقی کے ساتھ اس میں تیزی آئی ہے۔
اس تحقیق کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ اے آئی انسانوں کو کینسر کی قبل ازی وقت یا زیادہ درست طریقے سے شناخت کرنے میں مدد کر سکتا ہے، ممکنہ طور پر مریضوں کے لیے بہتر نتائج کا باعث بنتا ہے۔
تحقیق کے مصنفین کہتے ہیں کہ مذکورہ تحقیق میں کیا جانے والا مطالعہ اپنی نوعیت کا پہلا مطالعہ ہے جہاں انہوں نے عام لوگوں کو شامل کیا ہے تاکہ مصنوعی ذہانت کی مدد سے چھاتی کے کینسر کی تصاویر کا موازنہ کیا جا سکے۔
اس ٹرائل کا مقصد یہ تحقیق کرنا تھا کہ آیا چھاتی کے کینسر کے لیے میموگرافی اسکریننگ کو بہتر بنانے میں اے آئی ایک فائدہ مند ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے یا نہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق 2020 میں دنیا بھر میں سرطان کی بیماری سے کم از کم 6 لاکھ 85 ہزار خواتین موت کے منہ میں چلی گئیں۔
امریکن کینسر سوسائٹی کا کہنا ہے کہ امریکا میں ایک عورت کو اپنی زندگی میں چھاتی کا کینسر ہونے کا 13 فیصد امکان ہوتا ہے اور اس بیماری سے مرنے کا تقریباً 2.5 فیصد امکان ہوتا ہے۔
لندن میں انسٹی ٹیوٹ آف کینسر ریسرچ میں ریڈیولوجی کے پروفیسر جیمز او کونر کہتے ہیں کہ اے آئی ریڈیولوجی کے شعبے سے منسلک لوگوں کی روزمرہ کی زندگی میں اہم کردار کرے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر چھاتی کے کینسر کی تشخیص کے لیے مصنوعی ذہانت کا استعمال ہو تو اس سے مریضوں کو بھی فائدہ پہنچے گا اور وقت ضائع نہیں ہوگا۔
انہوں نے بتایا کہ اگرچہ مصنوعی ذہانت کی مدد سے اسکریننگ سسٹم کو تشخیص کے لیے کم از کم ایک ریڈیولوجسٹ کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن یہ ممکنہ طور پر میموگرام کی اکثریت کو ڈبل ریڈنگ کی ضرورت کو ختم کرسکتا ہے اور کام کے بوجھ پر دباؤ کم ہوسکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’سوال یہ ہے کہ اے آئی کا نفاذ کیسے ہوگا، کیونکہ مختلف ممالک میں اے آئی کی جدت کو تسلیم نہیں کیا گیا اور بعض مریض اپنی طبی تشخیص کے حوالے سے مصنوعی ذہانت کی مدد لینے کو ترجیح نہیں دیں گے۔ ’
جیمز او کونرکا خیال کہ ’مذکورہ تحقیق حوصلہ افزا ہے لیکن مصنوعی ذہانت کبھی بھی ریڈیولاجسٹ کی جگہ نہیں لے سکتی انہوں نے تسلیم کیا کہ یقینی طور پر دنیا بھر میں ریڈیولوجسٹ کی کمی ہے لیکن اے آئی اس شعبے میں محدود حد تک مدد کرسکتا ہے، میموگرام کے لیے رپورٹنگ میں مدد کے لیے کلینیکل ریڈیولوجسٹ کی ہی ضرورت ہوتی ہے۔ ’
وہ کہتے ہیں کہ اسے پوری طرح سمجھنے اور اس کے فوائد کا اندازہ لگانے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔