اگرچہ پچھلی چند دہائیوں کے دوران چین کی بے تحاشہ ترقی نے اسے ایک عظیم طاقت بنا دیا ہے، لیکن اس کے عروج نے اسے امریکہ کے ساتھ تیزی سے کشمکش میں ڈال دیا ہے‘ تعاون کی قدر کو تسلیم کرنے کے باوجود، چین اور امریکہ نے بنیادی طور پر مسابقت میں حصہ لیا ہے، یا واضح طور پر متضاد انداز اختیار کیا ہے، کیونکہ وہ جیوسٹریٹیجک اثر و رسوخ کے لئے مقابلہ کرتے ہیں تاہم یہ دونوں ممالک کے لئے ممکن ہے کہ وہ متعدد اہم چیلنجوں جیسے کہ موسمیاتی تبدیلی سے مقابلہ کرنے یا کسی اور عالمی وباء سے بچنے کے لئے باہمی طور پر فائدہ مند اہداف کے لئے کام کریں۔براہ راست دوطرفہ تعاون کے امکانات پر دھیان دینے کے علاوہ، چین اور امریکہ دونوں کو پہلے سے ہی دباؤ کا شکار ممالک کو کوئی فریق چننے پر آمادہ کرنے یا مجبور کرنے کے بجائے تیسرے ممالک میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے امکانات کے لئے کھلا رہنا چاہیے۔ غریب ممالک غیر پیداواری اور مخالف سرد جنگ میں پھنسنے کے متحمل نہیں ہو سکتے اسکے باوجود، چین اور امریکہ کے درمیان سٹریٹجک دشمنی 2013ء میں چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (BRI) کے اعلان کے ساتھ شدت اختیار کر گئی۔ تاہم امریکی پالیسی ساز اکثر چین کے بڑھتے ہوئے معاشی اثر و رسوخ کو”قرض سفارت کاری“ کی ایک مشق کے طور پر بیان کرتے ہیں، جو غریب ممالک پر اثر و رسوخ بڑھانے کے لئے مالی امداد کا فائدہ اٹھاتا ہے، حالانکہ امریکہ خود اپنی خارجہ پالیسی کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے امداد کا استعمال کرتا ہے۔ ابھرتی ہوئی امریکہ اور چین کی دشمنی نے مختلف دوسری شکلیں بھی اختیار کی ہیں جن میں تجارت کے قواعد سے متعلق تنازعات سے لے کر بڑھتے ہوئے جارحانہ فوجی انداز تک شامل ہیں‘ ایک طرف امریکہ چین کا مقابلہ کرنے کے لئے بھارت کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ دوسری طرف امریکی پالیسی ساز پاکستان کے بڑھتے ہوئے فوجی تعلقات اور چین پاکستان اقتصادی راہداری کے نفاذ کیلئے چینی مالی امداد پر انحصار کو پاکستان میں چین کے بڑے اثر و رسوخ کی واضح علامات کے طور پر دیکھتے ہیں‘ امریکہ کو یہ بھی خدشہ ہے کہ پاکستان کی طرف سے گوادر کو چینی انتظامیہ کے حوالے کرنا تجارتی بندرگاہ کو بحیرہ عرب میں دوہری استعمال کرنے والی اسٹریٹجک سہولت بننے کا پہلا قدم ہے‘پاکستان اپنے بنیادی ڈھانچے اور توانائی کی فوری ضروریات کو پورا کرنے کیلئے چینی فنڈنگ کو محفوظ بنانے کیلئے اپنے جیو اکنامک محل وقوع سے فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہا ہے لیکن پاکستان کو اب بھی ایک متوازن طریقہ کار وضع کرنے کی ضرورت ہے جس کی مدد سے وہ امریکہ کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات کو ترک کئے بغیر چین کے ساتھ تعاون جاری رکھ سکے۔ چین اور امریکہ دونوں کے ساتھ اپنے تاریخی تعلقات کے پیش نظر پاکستان عظیم طاقت کے تعاون کو جانچنے کے لئے ایک مثالی میدان فراہم کر سکتا ہے۔پاکستان کی چین اور امریکہ کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی صلاحیت، جیسا کہ اس نے نکسونی دور میں کیا تھا، موجودہ حالات میں اس کا کوئی امکان نظر نہیں‘ اگرچہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کشیدہ ہیں لیکن امریکہ اب بھی پاکستان کی سب سے بڑی برآمدی منڈی ہے امریکہ درحقیقت غیر ملکی سرمایہ کاری کا ایک اہم ذریعہ بن سکتا ہے جو پاکستان کو سی پیک کے ذریعے بنائے گئے خصوصی اقتصادی زونز کی اقتصادی صلاحیت کا ادراک کر سکتا ہے‘ اس کے برعکس پاکستان کے ساتھ امریکی دستبرداری نہ صرف پاکستان کے موجودہ معاشی تناؤ میں اضافہ کرے گی بلکہ پاکستان کو چین کے تیزی سے جمع ہونے والے قرضوں کو پورا کرنے میں ناکامی کی وجہ سے چین کی طرف مزید جھکنے پر مجبور کرے گی؛متعدد پالیسی ماہرین نے پاکستان جیسے اسٹریٹجک طور پر اہم ممالک میں امریکہ اور چین کے ساتھ رہنے یا ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کیلئے راستوں کی نشاندہی کرنے کی ضرورت کو تسلیم کیا ہے‘ اس کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ امریکہ اور چین ابھی تک پاکستان کے اندر باہمی طور پر فائدہ مند مصروفیات کیلئے ٹھوس امکانات کی نشاندہی نہیں کر سکے‘ اس طرح پاکستان کو امریکہ اور چین کے تعلقات کیلئے زمینی سطح پر مخصوص امکانات کی نشاندہی کرنے کی خاطر فعال ہونے کی ضرورت ہے، جو بیک وقت پاکستان کو انتہائی ضروری اقتصادی ترقی، انسانی ترقی اور ماحولیاتی لچک حاصل کرنے کے قابل بناتی ہے۔